اسرائیل کیخلاف فلسطینی قیدی العواودۃ کی 6 ماہ سے بھوک ہڑتال

   

سیاست فیچر
فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اسرائیلی حکومت اور ایجنسیاں جس انداز میں فلسطینیوں کے انسانی حقوق پامال کررہی ہیں، اس بارے میں بھی دنیا اچھی طرح جانتی ہے لیکن عالمی برادری نے مجرمانہ خاموشی اختیار کررکھی ہے جس پر شاید انسانیت بھی شرمسار ہوگئی ہے جہاں تک اسرائیلی مظالم کا سوال ہے ، اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھا گیا ہے جس کی تازہ ترین مثال فلسطینی قیدی خلیل محمد العواودۃ ہیں جنہوں نے جیل میں ہی مارچ سے بھوک ہڑتال شروع کررکھی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل بناء کسی الزام کے فلسطینیوں کو حراست میں رکھنے کا سلسلہ ختم کرے۔ العواودۃکا گاؤں مقبوضہ جنوبی مغربی کنارہ میں واقع ہے۔ حقوق انسانی کے ایک گروپ سے وابستہ ڈاکٹر لینا قاسم حسن کا جنہوں نے 11 اگست کو العواودۃکی عیادت کی، ان کا معائنہ کیا، کہنا ہے کہ العواودۃکی زندگی خطرے میں ہے۔ ڈاکٹر قاسم حسن کے مطابق العواودۃ کو جس میں اعصابی نقصانات کی علامات پائی گئی ہیں، خاص طور پر ان کی یادداشت متاثر ہوئی ہے اور وہ بصارت سے بھی تقریباً محروم ہوگئے ہیں۔ ان کی حالت دیکھ کر فلسطین میں اب یہ سوال کیا جارہا ہے کہ آیا العواودۃکو اسرائیل رہا کرے گا یا نہیں؟ فلسطینی اسلامی جہاد (پی آئی جے) گروپ نے مطالبہ کیا ہے کہ 7 اگست کو طئے پائے جنگ بندی معاہدہ کے تحت العواودۃکو رہا کیا جائے۔ اسرائیل نے غزہ پٹی پر تین دنوں تک شدید بمباری کے بعد جنگ بندی معاہدہ کیا تھا۔ اسرائیل کی اُسی درندگی کے نتیجہ میں صرف 72 گھنٹوں میں کم از کم 49 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں 17 بچے بھی شامل ہیں لیکن اب تک اسرائیلی حکام نے العواودۃکو رہا کرنے سے انکار کیا ہے اور اسرائیلی سپریم کورٹ نے بھی فوری رہائی سے متعلق ان کے وکیل کی درخواست کو بھی مسترد کردیا۔ پی آئی جے کا کہنا ہے کہ 7 اگست کے جنگ بندی معاہدہ کے تحت العواودۃکو فوری رہا کیا جانا چاہئے تھا کیونکہ مصر نے العواودۃکی رہائی کیلئے کام کرنے کا وعدہ کیا ۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے العواودۃکو پہلے پی آئی جے سے تعلق رکھنے کے شبہ میں گرفتار کیا تھا جس کی خود العواودۃکے وکیل نے سختی کے ساتھ تردید کردی۔ العواودۃ فی الوقت اساف حروفے دواخانہ میں زیرعلاج ہیں۔ یہ دواخانہ تل ابیب کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ دواخانہ کے بستر سے ہی الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے العواودۃنے بتایا کہ آزادی کسی بھی چیز سے بہت زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسی قوم ہے، جسے شکست نہیں دی جاسکتی۔ ہم فتح حاصل کریں گے یا پھر مرجائیں گے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ العواودۃ نے سال 2000ء کے اوائل سے اسرائیلی جیلوں میں جملہ 12 سال گذارے ہیں جس میں 5 سال انتظامی حراست کے ہیں۔ اس سے قبل بھی انہوں نے 111 دنوں تک بھوک ہڑتال کی تھی، لیکن ان کی انتظامی حراست ختم کرنے کیلئے اسرائیلی جیل حکام کے ساتھ معاہدہ طئے پایا جس کے نتیجہ میں انہوں نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کی لیکن ایک ہفتہ بعد ہی بھوک ہڑتال دوبارہ شروع کردی کیونکہ حکام نے ان کی رہائی سے متعلق وعدہ وفا نہیں کیا۔ العواودۃکی اہلیہ ضلال نے الجزیرہ کو بتایا کہ العواودۃ خلیل کے عزائم و ارادہ بہت بلند ہیں اور وہ انشاء اللہ فاتح ہوں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں ایک اندازہ کے مطابق 4,450 قیدی، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں جن میں 670 قیدیوں کو انتظامی حراست میں رکھا گیا ہے اور مارچ سے ان قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اسرائیل نے اس ماہ سے ہی مقبوضہ مغربی کنارہ میں اپنے دھاوؤں میں شدت پیدا کردی ہے۔ انتظامی حراست دراصل ایک ایسی اسرائیلی پالیسی ہے جس کے تحت کسی بھی فلسطینی کو بناء کسی الزام اور مقدمہ کے جیلوں میں بند کیا جاسکتا ہے اور یہ سب کچھ خفیہ شواہد کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ان شواہد کو محروس شخص اور نہ ہی اس کا وکیل دیکھ سکتا ہے۔ حقوق انسانی کے گروپس ، اسرائیل کے اس طریقہ کار کو من مانی اور اجتماعی سزا دینے کی ایک شکل سے تعبیر کررہے ہیں جو دراصل عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ فلسطینی قیدی نے ہندوستان کے بابائے قوم مہاتما گاندھی سے بھوک ہڑتال کا طریقہ سیکھا۔ کہا جاتا ہے کہ 20 ویں صدی کے اوائل میں حق رائے دہی حاصل کرنے کی خواہاں امریکی و برطانوی خواتین نے بھوک ہڑتال کا طریقہ اختیار کیا تھا۔