اسرائیل کیخلاف کارروائی میں عالمی برادری ناکام

   

امجد خان
جاریہ ہفتہ اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے دفتر کو نشانہ بنانے فضائی حملہ کیا جس میں 6 افراد بشمول حماس کے ایک اہم لیڈر خلیل الحیہ کے فرزند الحُمام ان کے دفتر کے ایک ڈائرکٹر ، تین باڈی گارڈس اور قطر کے ایک سیکورٹی آفیسر شہید اور کئی زخمی ہوئے ۔ اسرائیل نے اس حملہ کا جواز یہ پیش کیا کہ اُس نے پیر کو مشرقی یروشلم میں شوٹنگ کا بدلہ لیا جس میں 6 اسرائیلی مارے گئے ۔ یہ اسرائیلی ایرفورس ، شین بیت اور سیکورٹی فورسیس کی مشترکہ کارروائی تھی ۔ دراصل اسرائیل حماس کے اہم قائدین بشمول خالد مشعل ، خلیل الحیہ ، زاہر جبارین ، محمد درویش اور ابو مرذوق کو نشانہ بنانا چاہتا تھا لیکن نیتن یاہو جوچاہتا تھا وہ نہیں ہوسکا ۔ اس معاملہ میں امریکہ کا کردار بہت معاندانہ ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ دوحہ کے جس علاقہ میں اسرائیل نے حملہ کیا وہاں بیرونی سفارتخانہ ، اسکولس ، سوپر مارکٹس اور رہائشی کمپاؤنڈس واقع ہیں ۔ اس طرح کے علاقہ پر فضائی حملے کرتے ہوئے اسرائیل نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کا ارتکاب کیا بلکہ قطر میں بیرونی سفارتکاروں اور عام قطری شہریوں کی زندگیوں کو بھی خطرہ میں ڈال دیا ۔ عالمی سطح پر نیتن یاہو کے اس پاگل پن اور جنگی جنون کی شدید الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے لیکن کسی ملک اور اقوام متحدہ سے لیکر او آئی سی جیسے اداروں میں یہ ہمت نہیں کہ وہ اسرائیل کو اس کے جرائم اس کے گناہوں کی سزا دیں جہاں تک اسرائیلی جنگی جنون کا سوال ہے غزہ میں وہ مسلسل فلسطنیوں کا خون بہا رہا ہے ، ان کا قتل کررہا ہے ۔ چنانچہ 7 اکٹوبر 2023 سے اب تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس نے 65 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل کیا ہے ۔ 1.65لاکھ فلسطینی اس کے فضائی اور زمینی حملوں میں زخمی ہوئے، یہی نہیں اسرائیل نے غزہ پر تقریباً 1.5 لاکھ ٹن بم برسائے ، نتیجہ میں غزہ قبرستان میں تبدیل ہوگیا ۔ منہدم عمارتو ں کے ملبے تلے اب بھی ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی دبے ہوئے ہیں ۔ اسرائیل کی درندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ فلسطینی شہداء کی قبور کو بھی بمباری کا نشانہ بنارہا ہے ۔ اگر غیرسرکاری اعداد و شمار پر یقین کریں تو اسرائیل کے حملوں میں تاحال دو لاکھ سے زائد فلسطینی شہید اور 3لاکھ سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ۔ اگر دیکھا جائے تو اسرائیل نہ صرف غزہ پر مسلسل بمباری کرتے ہوئے زیادہ تر فلسطینی بچوں اور خواتین کو شہید کررہا ہے بلکہ لبنان ، شام ، تیونس اور یمن پر بھی حملے کرتا جارہا ہے جبکہ قطر پر اس نے پہلی بار حملہ کیا ۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ قطر پر حملہ کے ساتھ ہی عرب اور مسلم ملکوں نے شدید ردعمل کا اظہارکیا ۔ سعودی ولیعہد نے پُرزور انداز میں کہا کہ اس طرح کی جارحیت کا مقابلہ کرنے اور اس کے انسداد و تدارک کیلئے ضروری اقدامات کرنے ہوں گے ۔ شہزادہ سلمان کا یہ بھی کہنا ہیکہ غزہ فلسطینی زمین ہے اور کوئی بھی فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کرسکتا ۔ قطری وزیراعظم کے مطابق دوحہ پر اسرائیلی حملہ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی ہے اور قطر اس کا جواب دینے کا حق رکھتا ہے ۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی مندوب کے حوالہ سے یہ خبر آئی ہے کہ ٹرمپ نے امیر قطر صاحب السمو الشیخ تمیم بن حمد الثانی اور قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی کو تیقن دیا کہ اسرائیل اس طرح کے واقعہ کا اعادہ نہیں کرے گا ۔ حیرت اس بات پر ہیکہ امریکی مندوب ڈورتھی شا کا دعویٰ ہیکہ امریکی صدر غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں اور امریکہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کیلئے کام کرتا رہے گا لیکن امریکہ فی الوقت جو کچھ بھی کررہا ہے وہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں امریکی مندوب کی جانب سے کئے گئے دعوؤں کے برعکس ہے جس کا ثبوت یہ ہیکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف جب بھی قراردادیں پیش کی گئیں امریکہ نے اسے ویٹو کردیا ۔ دوسری جانب امریکی سرپرستی میں جارحیت کا سلسلہ جاری رکھنے والے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے جنگی جنون کا ثبوت دیتے ہوئے پھر کہا ہیکہ کوئی بھی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی حالانکہ کئی ملکوں نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے جاریہ اجلاس میں علحدہ مملکت فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہیکہ یہ ممالک اپنے وعدہ کی پاسداری کرتے ہیں یا نہیں ۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیل کی مذمت تو کی گئی لیکن اس کا نام نہیں لیا گیا ۔ اقوام متحدہ اور آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز نے زبانی طور پر قطر کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور اسرائیلی حملہ کو عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ دونوں ادارے اسرائیل کے خلاف کیا کارروائی کریں گے ۔ ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں زخمی ہوئے اس کے باوجود اسرائیل کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا ۔ مسلم اور عرب ملکوں کو اسی نکتہ پر غور کرنا ہوگا ورنہ اسرائیل ایک ایک ملک کو چن چن کر نشانہ بنائے گا ۔