اسرائیل کے وحشتناک رویہ پر انسانی حقوق کے ارکان تڑپ اٹھے، عام شہریوں کی گرفتاریوں کی چھان بین کا مطالبہ
غزہ: انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو حراست میں لیے جانے والے فلسطینیوں کو شدید مشکلات اور ہتک آمیز رویے کا سامنا ہے اور مردوں کو زیرجامہ تک اتارنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اے پی کے مطابق غزہ کے شمالی حصے میں اپنے خاندانوں سے بچھڑ جانے والے لوگ موجود ہیں، جہاں سے اسرائیلی فوج لوگوں کو حراست میں لیتی ہے اور ٹرک پر چڑھانے سے قبل زیرجامے اتارنے پر مجبور کیا جاتا ہے اس کے بعد انہیں ساحل سمندر کے قریب حراستی مرکز لے جایا جاتا ہے جہاں انہیں سخت سردی میں بھوکا، پیاسا رہنا پڑتا ہے۔ خبرہے کہ پکڑے جانے والے فلسطینیوں کو حملوں کا شدید نشانہ بننے والے شہر بیت لہبیہ، جبالیہ اور اس کے قریبی علاقوں میں بنے حراستی مرکز میں لے جایا گیا اور اس سے قبل آنکھوں پر پٹی باندھ کر ٹرکوں میں سامان کی طرح بھرا گیا۔ان میں سے کچھ نے بتایا کہ ان لوگوں کو کسی نامعلوم مقام پر تقریباً برہنہ حالت میں لے جایا گیا۔ایک متاثرہ شخص ابراہیم نے بتایا کہ ’ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا گیا۔ انہوں نے ہمارے ہاتھوں پر نمبرز لکھے۔‘30 سالہ ابراہیم ایک کمپیوٹر انجینیئر ہیں اور ان کو سات دسمبر کو لہیہ سے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور پوری رات حراست میں رکھا گیا۔‘ان کے مطابق ’ہم ان کی شدید نفرت کو محسوس کر سکتے تھے۔‘ ماہرین اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہریوں کو حراست میں لیے جانے کے سلسلے کو ایک حکمت عملی کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اس کا مقصد خالی ہونے والے علاقوں کا کنٹرول سنبھالنا ہے اور حماس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کرنا ہے۔انہوں نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ حماس سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ایسی تصاویر اور ویڈیوز بھی منظرعام پر آئی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے فلسطینی مردوں کے ہاتھ پیچھے باندھے گئے ہیں اور ان کو گھٹنوں کے بل کھڑا کیا گیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔جنیوا میں قائم ادارییورو۔ میڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کے بانی رامے عبدو نے بتایا کہ ان کا اندازہ ہے کہ اسرائیلی فورسز نے شمالی غزہ میں کم ا ز کم 900 فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے۔ رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں نے کہا کہ انہیں رات کے وقت سخت سردی میں رکھا جاتا اور بار بار حماس کی سر گرمیوں کے بارے میں پوچھاجاتا جن کا بیشتر کوئی جواب نہیں دے سکتے تھے۔ اگر کوئی اپنی باری سے پہلے بولتا تو فوجی انہیں ذدو کوب کرتے اور پاؤں کی ٹھوکر سے ان کے چہروں پر ریت پھینکتے۔متعدد فلسطینیوں نے جنہیں 24 گھنٹے یا اس سے کم گھنٹوں کے لیے حراست میں رکھا گیا، بتایا کہ انہیں کھانے کو کچھ نہیں دیا گیا اور لگ بھگ 300 زیر حراست لوگوں کو ڈیڑھ لیٹر پانی کی تین بوتلیں شئیر کرنے پر مجبور کیا گیا۔اے پی کے مطابق رہا کیے گئے فلسطینیوں نے بتایا کہ گھر واپسی بذات خود خوفناک تھی۔اسرائیلی فوجی قیدیوں کو آدھی رات کے بعد ان کے لباس، فون یا شناختی کارڈز کے بغیر اس مقام کے قریب چھوڑ جاتے جو بظاہر اسرائیل کے ساتھ غزہ کی شمالی سرحد تھی۔انہیں حکم دیا گیاکہ وہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے پیدل گزر کر جائیں جب کہ سڑک کے ساتھ ساتھ ٹینک اور چھتوں پر اسنائپرز متعین ہوتے ۔غزہ میں انسانی حقوق سے متعلق فلسطینی سنٹر کے ایک وکیل، راجی سورانی نے بتایا کہ اس مقام پر تین چار ہفتوں سے ہر جگہ لاشیں بکھری ہوئی ہیں کیو ں کہ انہیں دفن کرنے کے لیے کوئی ان تک نہیں پہنچ سکتا جس کے بعد انہیں کتے کھا جاتے ہیں۔سورانی نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے غزہ سے مصر کے ساتھ جنوبی سرحد پر جاتے ہوئے درجنوں لاشیں دیکھیں۔فلسطینیوں نے بتایا کہ اسرائیلی فوجی ہر دروازے پر کتوں کے ساتھ آتے تھے، اور لاؤڈ اسپیکرز پر خاندانوں سے باہر آنے کا کہتے تھے۔ بیشتر واقعات میں خواتین اور بچوں سے کہا جاتا تھا کہ وہ کسی پناہ کی تلاش میں کہیں دور چلے جائیں۔رہا ہونے والے کچھ قیدیوں نے اپنے ساتھ ہونے والے تضحیک آمیز سلوک کے بارے میں بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے ان کے تقریبابرہنہ حالت میں فوٹو لیے جو بعد میں وائرل ہوئے۔کچھ کا اندازہ تھا کہ انہیں کئی میٹر تک کے سفر کے بعد کسی ساحل پر ٹھنڈی ریت پر ڈمپ کیا گیا تھا۔انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کی اجتماعی گرفتاریوں کی چھان بین ہونی چاہیے۔ کیوں کہ یہ ایک نا قابل برداشت صورتحال ہے۔