غزہ کی ہولناک صورتحال میں بہتری کے اقدامات کرنے ہوں گے، برطانیہ کا موقف
لندن۔ 30 جولائی (ایجنسیز) برطانوی وزیراعظم کیر اسٹارمر نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں ہولناک صورتِ حال کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو برطانیہ ستمبر میں ریاستِ فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لے گا۔اس بات کا اعلان منگل کو ایک حکومتی بیان میں کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نے کابینہ سے کہا کہ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا امن عمل میں ایک حقیقی پیشرفت کے طور پر ہوگا۔ خاص طور پر اس وقت جب 2 ریاستی حل کو سب سے زیادہ اثرانداز بنایا جا سکتا ہو۔کیر اسٹارمر نے مزید کہا کہ چونکہ اس وقت 2 ریاستی حل کو شدید خطرات لاحق ہیں اس لیے اب عمل کا وقت ہے۔وزیراعظم نے گرما کی تعطیلات کے دوران ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا تاکہ غزہ میں امدادی سامان پہنچانے اور مجوزہ امن منصوبہ پر تبادلہ خیال کیا جاسکے۔ ان پر ان کی جماعت لیبر پارٹی کے اندر سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے۔پیر کے روز اسکاٹ لینڈ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات میں اسٹارمر نے غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت اور’’تباہ کن انسانی بحران‘‘ پر تبادلہ خیال کیا۔ذرائع کے مطابق برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ منصوبہ پر کام کر رہا ہے جس پر تینوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان گزشتہ ہفتہ رابطہ ہوا تھا۔ اگرچہ منصوبہ کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں تاہم اسٹارمر نے اسے ’’خواہشمندوں کا اتحاد‘‘ قرار دیا جیسا کہ یوکرین کے لیے عالمی حمایت کی مثال ہے۔وزیراعظم کے ترجمان کے مطابق اسٹارمر یہ منصوبہ دیگر بین الاقوامی اتحادیوں اور مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں کے ساتھ بھی زیر بحث لائیں گے۔غزہ میں اسرائیل کی جنگ کو 22 ماہ گزر چکے ہیں اور انسانی بحران پر اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے جسے اس کی حکومت مسترد کرتی ہے۔ اقوام متحدہ میں برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی نے منگل کے دن نیویارک میں 2 ریاستی حل کی حمایت پر زور دیا۔برطانیہ کی ماضی کی حکومتیں یہ کہتی آئی ہیں کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ ’’درست وقت‘‘ پر کیا جائے گا مگر اس حوالہ سے کبھی کوئی حتمی ٹائم فریم یا شرائط طے نہیں کی گئیں۔ اس معاملہ کو ایک بار پھر اس وقت تقویت ملی جب فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے گزشتہ جمعرات کے دن کہا تھا کہ ان کا ملک فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔گزشتہ جمعہ کو برطانوی پارلیمنٹ کی 9 مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 200سے زائد ارکان نے ایک مشترکہ خط پر دستخط کیے جس میں فلسطینی ریاست کو فوری طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے 15 ماہ کا وقت مقرر
غزہ جنگ کے خاتمے کیلئے اجتماعی اقدامات پر اتفاق ، اسرائیل سے اعلانیہ عہد کرنے کا مطالبہ
نیویارک ۔30 جولائی ۔ ( ایجنسیز ) منگل کو نیویارک میں دو ریاستی حل کانفرنس منعقد ہوئی جس کے شرکاء نے اسرائیل۔فلسطین تنازعہ کو دو ریاستی حل کی بنیاد پر ختم کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا، یہ بات کانفرنس کے حتمی بیان کے مسودے سے معلوم ہوئی۔سات صفحات پر مشتمل یہ اعلامیہ اس ہفتے اقوامِ متحدہ میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا نتیجہ ہے۔مسودے میں کہا گیا کہ جنگ، قبضے اور نقلِ مکانی سے امن قائم نہیں ہو سکتا، دو ریاستی حل ہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کی امنگوں کو پورا کرنے کا واحد راستہ ہے اور اسرائیل کے شانہ بشانہ امن سے رہنے والی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا گیا۔کانفرنس کے شرکاء نے کہا ہے کہ وہ دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مقررہ وقت پر اقدامات کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے 15 ماہ کا وقت مقرر کیا ہے۔مسودے میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے لیے ایک قابلِ عمل مستقبل کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور اور خبردار کیا گیا ہے کہ دو ریاستی حل کے بغیر تنازع مزید گہرا ہو جائے گا۔ اس میں اسرائیل سے دو ریاستی حل کے لیے اعلانیہ عہد کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔اس میں فلسطینیوں کی جبری نقلِ مکانی کو مسترد کرنے کی ضرورت کو نمایاں کرتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف تشدد اور اشتعال انگیزی ختم کرے۔مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ اب ختم ہونی چاہیے اور یہ نوٹ کیا گیا کہ شرکاء نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اجتماعی اقدامات پر اتفاق کیا۔7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں اور شہریوں کے خلاف اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے زور دیا گیا کہ حماس تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا اور غزہ میں اپنی حکمرانی ختم کر دے۔ اس میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت یرغمال بنانا ممنوع ہے۔مسودے میں غزہ میں بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر مسترد کرنے پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی فوری اور بلا تعطل ترسیل ہونی چاہیے۔مسودے میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ شرکاء غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ایک وقف فنڈ کے قیام کی حمایت کرتے ہیں اور اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو غزہ کی تعمیرِ نو کی کوششوں میں مدد کے لیے وسائل فراہم کرنے چاہئیں۔مسودے میں مزید کہا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ انتظام غزہ میں فوری طور پر ایک عبوری کمیٹی قائم کی جائے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے عرب منصوبے پر فوری عمل درآمد کی حمایت کا اظہار کیا گیا۔اس میں فلسطینی اتھارٹی کے تحت ایک ریاست اور ایک مسلح فوج کے اصول کا خیرمقدم کیا گیا اور حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنے اور اس کے ہتھیار فلسطینی سکیورٹی فورسز کے حوالے کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔