رامچندر گوہا
گزشتہ سال یعنی 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل میں داخل ہوکر اس کے شہریوں پر سفاکانہ حملہ کردیا جس میں 1100 سے زائد اسرائیلی مارے گئے ان میں 75 فیصد شہری تھے (حماس نے یہ حملہ اسرائیل کے مسلسل مظالم ان کے علاقوں پر قبضوں ان کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی گرفتاریوں اور نسل کشی کے خلاف کئے تھے ، وہ اسرائیل مظالم سے عاجز آچکے تھے اور ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے غزہ کو کھلی جیل میں تبدیل کردیا ہے) ان حملوں کے فوری بعد اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے غزہ پر بمباری کی۔ ایک طرح سے بموں کی بارش کردی۔ واضح رہے ، غزہ پر حماس کا کنٹرول ہے ۔ بہرحال حماس کے حملوں اور پھر اسرائیل کے جوابی حملوں کے بعد کوئی بھی یہ سوچا ہوگا اور امید کی ہوگی کہ چند دنوں یا چند ہفتوں بعد اسرائیل بمباری روک دے گا لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ تباہی و بربادی کی یہ مہم شروع ہوئے ایک سال مکمل ہونے کو آرہا ہے ۔ 7اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیل کے زمینی و فضائی حملوں میں 50 ہزار سے زائد فلسطینی اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں جن میں 90 فیصد عام فلسطینی شہری شامل ہیں۔ اگر سرکاری سطح پر اسرائیلیوں کے مقابل فلسطینیوں کے جاں بحق ہونے کا تناسب دیکھا جائے تو ایک اسرائیلی مارا جاتا ہے تو اس کے جواب میں اسرائیل نے 50 فلسطینیوں کا خاتمہ کیا ۔ حد تو یہ ہے کہ ایک لاکھ کے قریب فلسطینی زخمی ہوئے جن میں 70-80 فیصد مستقل طور پر معذور ہوچکے ہیں۔ غزہ کی جملہ آبادی 23 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جس میں ایک تا 1.5 ملین فلسطینی بے گھر ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی حملوں کے نتیجہ میں غزہ ایک طرح سے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے عہدیداروں کے مطابق اسرائیل نے غزہ کو قبرستان میں تبدیل کردیا ہے ۔ اس نے غزہ پر اس قدر زیادہ بم اور میزائیل برسائے ہیں کہ وہاں کی بیشتر عمارتیں بشمول ہاسپٹلس ، اسکول و کالجس رہائشی علاقہ جیسے ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ۔ دوسری طرف اسرائیل نے اب لبنان جیسے ملک پرحملے شروع کردیئے ہیں۔ یہاں پر بھی اس نے دہشت گردوں اور معصوم و بے قصور شہریوں میں کوئی فرق نہیں کیا اور نہ ہی ان کی پرواہ کی(نہتے انسانوں خاص کر فلسطینی خواتین اور بچوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کرنے والے اور ان کی نسل کشی کرنے والے اسرائیل کو دہشت گرد کہنا چاہئے ، اس کے خلاف آواز اٹھانے اور اس کے ناجائز قبضے و ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے تو اپنے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں) بہرحال اسرائیل نے مخصوص عناصر کے صفائے کیلئے اپنی کوششوں میں ہزاروں لبنانی شہریوں کی زندگیوں کا خاتمہ کردیا ۔ (با الفاظ دیگر ان کا قتل کیا) اس کے علاوہ اسرائیل کے تباہ کن حملوں میں لاکھوں لبنانی شہری بے گھر بھی ہوئے ۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) نے مملکت اسرائیل اور حماس کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے اور اس نے حماس کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے حماس کے خلاف انتقامی کارروائی میں بہت زیادہ تباہی مچائی ۔ ہزاروں فلسطینی اس کے حملوں میں جاں بحق ہوئے ۔ اسرائیل نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے غزہ میں فلسطینیوں کیلئے غذائی اشیاء کی سپلائی کو روک دیا ۔ پانی اور بجلی کی سربراہی بند کردی۔ اس کے ظالمانہ اقدامات کے نتیجہ میں بے شمار لوگ خاص کر بچے بھوک کا شکا ہوگئے ۔ اپنے اس کالم میں ہم نے صرف حماس اور اسرائیل کی کارروائیوں کا جائزہ لیا بلکہ ان قوتوں کے بارے میں بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی ، یہ ایسی طاقتیں ہیں جنہوں نے اسرائیل کی مدد کی اور کچھ نے حماس کی مدد کی ۔ اس طرح دونوں کی کارروائیوں میں ان کا اہم کردار رہا ۔ حماس کی مدد ایران کے ساتھ لبنان میں سرگرم حزب اللہ نے کی ۔ مغربی میڈیا نے بار بار ایران اور حزب اللہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میڈیا کو اسرائیل کا ساتھ دینے والوں جنگی جرائم میں اسرائیل سے تعاون کرنے والوں کے نام منظر عام پر لانے میں شرم محسوس ہورہی ہے ۔ ان کی شناخت میں مغربی میڈیا عار محسوس کر رہا ہے لیکن ہمیں اسرائیل کی مجرمانہ حرکتوں اور انسانیت کے خلاف جرائم میں شریک رہنے والوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا چاہئے ۔ اسرائیل کے جرائم میں اس کا ساتھ دینے والوں میں امریکہ سرفہرست ہے۔ اس نے اسرائیل کو مسلسل فوجی امداد فراہم کی ہے اور غزہ پر (اور اب لبنان پر) حملوں کیلئے اسرائیل کو ہتھیار بھیجتا جارہا ہے ۔ امریکہ نے اسرائیل کو سفارتی ڈھال بھی فراہم کی ہے یعنی جب کبھی اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش اور منظور کی گئی، امریکہ نے اپنے ویٹو اختیار کا استعمال کرتے ہوئے قرار داد پر عمل آوری کی کوششوںکو ناکام بنادیا ۔ اس کی بہتر مثال اقوام متحدہ میں پیش کردہ وہ قراردادیں ہیں جس کے ذریعہ اسرائیل۔ فلسطین جنگ بندی کو یقینی بنایا جاسکتا تھا لیکن امریکہ نے اپنے ویٹو اختیارات استعمال کرتے ہوئے عالمی برادری اور عالمی ادارہ کی کوششوں کو ناکام بنایا ۔ امریکی حکومت کی اس پالیسی کے خلاف خود امریکہ کے کئی سیاستداں ناراض ہیں۔ اس سلسلہ میں سابق خاتون اول سابق سنیٹر اور سابق سکریٹری آف اسٹیٹ ہلاری کلنٹن کا ایک انٹرویو منظر عام پر آیا ۔ یہاں اس بات کا تذ کرہ ضروری ہوگا کہ ہلاری کلنٹن نے صدارتی مقابلہ بھی کیا تھا ۔ فی الوقت ہلاری کلنٹن کولمبیا یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس یونیورسٹی میں اس کے دیگر کیمپس میں بھی طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے غزہ پر اسرائیلی فضائی حملے روکنے کا مطالبہ کیا ۔ ان طلبہ کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اسرائیل فوری جنگ بندی کیلئے راضی ہوجائے لیکن ہلاری کلنٹن نے طلبہ کے ان احتجاجی مظاہروں کو اس بنیاد پر مسترد کردیا کہ ان کی تائید و حمایت اور فنڈنگ (مالیہ کی فراہمی) باہر سے کی گئی ہے۔ ہلاری کا کہنا تھا کہ ان احتجاجیوں کو یہودی دشمن طاقتوں نے سرگرم کیا اکسایا لیکن ہلاری کلنٹن نے اپنے ان الزامات کی سپورٹ میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا ۔ ہاں اگرچہ احتجاجی مظاہروں میں کچھ عناصر بناء بلائے چلے آئے لیکن احتجاجیوں کی اکثریت طلبہ اور فیکلٹی ممبران پر مشتمل تھی اور جو اپنی مرضی سے فلسطینیوں کی تائید اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے تھے ۔ کئی یہودی طلبہ بھی ان مظاہروں میں شریک رہے کیونکہ انہیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ اسرائیل غزہ میں بچوں کو نشانہ بنارہا ہے ۔ انہیں چن چن کر قتل کر رہا ہے( بدبختی یہ رہی کہ انٹرویو نگار فرید ذکریا نے بھی ہلاری کلنٹن کے الزامات کو چیلنج نہیں کیا اور ان میں یہ دریافت کرنے کی جرأت و ہمت نہیں رہی کہ آخر آپ کے الزامات کی سچائی میں آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں) ہلاری کلنٹن کا انٹرویو سننے کے دوران میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ نیویارک سے بہت دور ایک اور ایجنسی ہے جس کی باہر سے فنڈنگ کی گئی اور تائید وحمایت کی گئی اور وہ اسرائیل اسٹیٹ ہے جس کی امریکی حکومت مسلسل مدد کر رہی ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی حکومت نے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے اور ان کی خلاف ورزی کا بار بار ارتکاب کرنے والے اسرائیل کی مدد میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ موجودہ تنازعہ یا جنگ سے پہلے سے ہی امریکہ اسرائیل کی قدم قدم پر مدد کر رہا ہے اور اسرائیل عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوتا جارہا ہے ۔ ہاں مغربی کنارہ میں یہودی آبادکاروں کیلئے بستیوں کی توسیع پر واشنگٹن کبھی کبھی معمولی سا اعتراض جتاتا ہے پھر خاموش ہوجاتا ہے ۔ اس نے اسرائیل کے ان جرائم اور حرکتوں پر کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ۔ امریکی حکومت چاہے ریپبلکن کی ہو یا پھر ڈیموکریٹس کی ہمیشہ دنیا کی یہ سب سے طاقتور حکومت نے فلسطینیوں کی زمین پر یہودی آباد کاروں کے غیر قانونی قبضوں کو رکوانے کبھی کچھ نہیں کیا جبکہ یہ یہودی آباد کار صیہونی فورس کی مدد سے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے کرتے رہے ہیں ، جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ نتیجہ میں ایک فلسطینی ریاست کی تخلیق اب ناممکن نظر آرہی ہے ۔ اس کیلئے جتنا اسرائیل ذمہ دار ہے ، اتنا ہی امریکہ بھی ذ مہ دار ہے ۔ امریکہ بین الاقوای قوانین کی مجرمانہ خلاف ورزیوں میں اسرائیل کا سب سے بڑا شریک ہے ۔ تاہم اس میں برطانیہ ، فرانس ، جرمنی بھی شریک ہیں جبکہ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہمارا ملک جمہوریہ ہندوستان بھی اسرائیل کی کارروائیوں اور حرکتوں میں شریک ہے۔