امجد خان
غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کی درندگی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر روز اسرائیل حملوں میں درجنوں فلسطینی جام شہادت نوش کررہے ہیں کثیر تعداد میں زخمی ہو رہے ہیں، شہدا اور زخمیوں میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیکہ اسرائیلی جس قدر بھیانک اور سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے فلسطینیوں کا قتل عام کررہے ہیں اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ فلسطینی بچے جوان مرد بوڑھے اور خواتین ارض مقدس فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کو اسرائیلی شکنجہ سے آزاد کرانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے جارہے ہیں۔ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی و بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب اسرائیلی رفح میں پناہ لئے ہوئے تقریباً 15 لاکھ فلسطینیوں کے صفائے پر تلا ہوا ہے حالانکہ رفح میں فلسطینی انتہائی کسپرسی کی زندگی گذاررہے ہیں، اگر اسرائیل رفح میں زمینی حملہ کرتا ہے تو لاکھوں فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوگا۔ اس سلسلہ میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارہ OCHA کے ترجمان JENS LAERKE نے اس امر کا حدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسرائیل اگر رفح کو نشانہ بناتا ہے تو اس سے لاکھوں فلسطینیوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ رفح میں کئی مقامات پر ہر روز اسرائیل حملے کرتا جارہا ہے جس میں یومیہ اوسطاً 50 فلسطینی شہید اور 60 فلسطینی زخمی ہو رہے ہیں۔ ان میں بھی بچوں کی اکثریت ہے۔ غزہ میں اسرائیل نے تاحال 75-80 ٹن بارود برسایا ہے جس سے اس کی درندگی انسانیت دشمنی اور فلسطینیوں سے ذاتی دشمنی و عداوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 سے غزہ پر بمباری، شلباری اور میزائیلس داغنے کا سلسلہ شروع کیا اور 210 دنوں میں اسرائیل کے فضائی و زمینی حملوں میں 80 فیصد سے زائد غزہ تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ اسولس، کالجس (یونیورسٹیز) اسپتال، پناہ گزیں کیمپس، مساجد اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔
الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں عبداللہ الضرداری ڈائرکٹر ریجنل بیورو فار عرب اسٹیٹس UNDP پروگرام نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم نے 1945 کے بعد اس طرح کی تباہی کہیں نہیں دیکھی صرف 210 دنوں میں اسرائیل نے غزہ کو پوری طرح تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ حماس جنگ میں جو تباہی ہوئی تھی اس میں 2.4 ملین ٹن ملبے کے ڈھیر کی نکاسی کی گئی تھی۔ آپ کو بتادیں کہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی حملوں میں کم از کم 35 ہزار فلسطینی شہید اور 79 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں جبکہ اسرائیل میں مرنے والوں کی تعداد 1139 رہی۔ واضح رہے کہ طلبہ کے احتجاجی مظاہروں میں کولمبیا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سرفہرست ہیں جہاں 18 اپریل سے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے طلبہ احتجاج کررہے ہیں جہاں تک اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات کا سوال ہے کسی بھی مسلم و عرب ملک کو اس کے ساتھ یہ تعلقات منقطع کرلینے چاہئے، حالیہ عرصہ کے دوران ترکیہ نے اسرائیل سے تجارتی تعلقات منقطع کردیئے۔ امریکی میڈیا کی رپورٹس میں واضح کیا گیا کہ ترکیہ نے اسرائیل سے تمام درآمدات و برآمدات پر پابندی عائد کردی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہیکہ امریکہ اور یوروپی یونین ترکیہ کو مخالف اسرائیل اس کارروائی پر کیا سزا دیتے ہیں کیونکہ صدر ترکی رجب طیب اردغان نے اسرائیلی درآمدات و برآمدات کے لئے بندرگاہیں بند کرکے اسرائیل کے حلیف ملکوں سے دشمنی مول لی ہے۔ غزہ پر جہاں اسرائیلی فورس مسلسل حملہ کررہی ہیں وہیں اقوام متحدہ کے دفتر برائے حقوق انسانی کا دعویٰ ہیکہ بیت المقدس پر قابض اسرائیلی یہودی نوآبادکار اسرائیلی فوج کی مدد سے فلسطینیوں پر جان لیوا حملہ کرتے ہیں، 7 اکتوبر 2023 سے اب تک یہودی نوآبادکاروں نے فلسطینیوں پر اس طرح کے کم از کم 800 حملے کئے ہیں جس میں بے شمار فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔ جہاں تک اسرائیل کے خلاف طلبہ کے مظاہروں کا سوال ہے۔ امریکی یونیورسٹیز کے طلبہ کا احتجاج امریکہ سے کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیائی یونیورسٹیز سے پھیل کر یونان اور لبنان کی یونیورسٹیز میں داخل ہوگیا ہے۔ پیرس کی سائنس یونیورسٹی میں بھی فلسطینیوں کی تائید اور اسرائیل کے خلاف طلبہ نے زبردست احتجاج کیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ گزشتہ 7 ماہ کے دوران غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 100 سے زائد صحافی بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔