صبح کے اوقات میں مساجد اور گھر پر نکاح کی تقاریب، دلہن والوں پر بوجھ میں کمی ، لاک ڈاؤن کے بعد بھی روایت جاری رہے
حیدرآباد: کورونا لاک ڈاؤن سے ایک طرف عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا لیکن شادیوں کے انعقاد میں اسراف سے بچاؤ میں بڑی حد تک مدد ملی ہے ۔ مئی ، جون اور جولائی کو شادیوں کیلئے مبارک سیزن کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور تینوں مہینوں میں بڑے پیمانہ پر شادی کی تقاریب منعقد کی جاتی ہے ۔ لاک ڈاون کے نتیجہ میں بعض افراد نے شادی کی تاریخ کو آئندہ کیلئے ملتوی کردیا جبکہ زیادہ تر خاندانوں میں مقررہ وقت پر سادگی سے شادی کے اہتمام کی روایت شروع کی ہے ۔ نہ صرف مسلم خاندانوں بلکہ غیر مسلم گھرانوں میں بھی شان و شوکت اور دھوم دھام کے بغیر روزانہ شادیوں کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں اسراف سے بچنے اور سادگی کے ساتھ نکاح منعقد کرنے کیلئے طویل عرصہ سے مہم چلائی گئی ۔ ملت کا درد رکھنے والی شخصیتوں اور سماج کے اکابرین و مذہبی رہنماؤں نے گزشتہ کئی دہوں سے شادیوں کے مو قع پر فضول خرچی اور دھوم دھام کے بجائے مساجد میں نکاح کی ترغیب دی ۔ اس مہم کا تلنگانہ میں اثر ضرور ہوا لیکن محدود تعداد میں شادیاں سادگی سے انجام دی جارہی ہے ۔ کورونا لاک ڈاون کے آغاز کے ساتھ ہی صبح کے وقت شادیوں کے اہتمام کی قدیم روایت کا احیاء عمل میں آیا ہے، اس کے علاوہ مساجد اور گھروں میں کم تعداد کے ساتھ نکاح منعقد کئے جارہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں آج بھی صبح کی شادیوں کی روایت برقرار ہے اور رقعہ میں وقت کی جگہ صبح تا نصف النہار درج کیا جاتا ہے ۔ اب جبکہ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں مجبوراً ہی سہی لیکن زیادہ تر مسلم شادیاں اسراف کے بغیر سادگی کے ساتھ انجام پارہی ہیں ۔ حکومت نے شادیوں کیلئے 40 افراد کی شرط مقرر کی ہے جس کی پابندی غریب اور متوسط طبقات کر رہے ہیں لیکن دولت مند اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں میں لاک ڈاؤن کے باوجود خفیہ طور پر فارم ہاوزس میں بڑی دعوتوں کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ پرانے شہر میں صبح کے اوقات میں چھوٹے فنکشن ہالس میں شادی کی تقاریب منعقد کی جارہی ہے یا پھر گھر میں نکاح کا اہتمام کرتے ہوئے 20 تا 25 افراد کی دعوت کا انتظام کیا جارہا ہے ۔ مساجد میں نکاح کی روایت بھی بحال ہوئی ہے۔ بعد نماز فجر یا پھر 8 یا 9 بجے صبح مساجد میں نکاح کا اہتمام کرتے ہوئے وہیں سے رخصتی کی جا رہی ہے ۔ مسلم معاشرہ میں یہ تبدیلی اگرچہ لاک ڈاؤن کی دین ہے لیکن عام مسلمان اس تبدیلی سے کافی خوش ہیں کیونکہ دلہن والوں پر شادی کے بوجھ میں کافی کمی آئی ہے ۔ مسلمانوں کا احساس ہے کہ لاک ڈاؤن کی برخواستگی کے بعد بھی مسلمانوں کو صبح کے وقت اور مساجد میں نکاح کے اہتمام کی روایت کو جاری رکھنا چاہئے تاکہ اسراف کے بغیر سنت نبوی کے تحت نکاح کی تکمیل ہوسکے۔ دنیا بھر میں حیدرآباد کی شادیاں شاہ خرچی اور اسراف کے لئے شہرت رکھتی ہے ۔ شادی کے موقع پر بے شمار لوازمات اور ڈشیس کا اہتمام حیدرآباد کی شناخت بن چکا ہے ۔ اب جبکہ کورونا لاک ڈاؤن میں اسراف سے بچاؤ کی راہ ہموار کی ہے ، لہذا مسلمانوں کو آئندہ بھی موجودہ طریقہ کار کے مطابق شادیوں کا اہتمام کرتے ہوئے بچت کی رقم غریب لڑکیوں کی شادیوں پر خرچ کرنی چاہئے ۔ حیدرآباد کے کئی علماء اور اکابرین نے امید ظاہر کی ہے کہ مسلمان اپنی دعوتوں میں سادگی کو آئندہ بھی اختیار کریں گے تاکہ غریب لڑکیوں کی شادی میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ دلہن کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ دولہے کے والدین بھی خاطر خواہ رقم کی بچت کرسکتے ہیں۔ حیدرآباد میں غریب اور متوسط طبقات کیلئے شادیاں بوجھ بن چکی ہیں کیونکہ دلہن کے ماں باپ دولہے والوں کے مطالبات کی تکمیل سے قاصر ہوتے ہیں۔ شادی کے موقع پر عالیشان فنکشن ہال کے انتخاب سے لے کر پکوان میں کئی ڈشیس کی سربراہی کا مطالبہ کیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں فنکشن ہال اور کھانے کے انتظامات پر لاکھوں روپئے خرچ ہوجاتے ہیں۔