اسلامی خاندانی نظام

   

ابوزہیر نظامی
اسلامی تعلیمات میں خاندانی نظام کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اسلام نے اس کے بارے میں جتنی تعلیم اور اہمیت دی ہے، وہ شاید کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔ ایک خاندان میں جتنے افراد ہوتے ہیں، ان سب کی اہمیت علحدہ علحدہ بتائی ہے۔ اسلام ضعیف العمر افراد کو ’’بیت المعمرین‘‘ بھیجنے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ ان کی دیکھ بھال پر اجر و ثواب کی تعلیم دی گئی ہے اور ضعیف افراد کی عمر کے لحاظ سے ان کی فضیلت بتائی گئی ہے۔والدین کو اولاد کے متعلق احکامات دیئے ہیں اور اولاد کو والدین کے متعلق۔ بیوی کو خاوند کے متعلق احکامات دیئے ہیں اور خاوند کو بیوی کے متعلق۔ اس سے اسلام کے اندر خاندانی نظام کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔خاندان کے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات کو بھی جوڑنے کا کہا گیا ہے، قطع رحمی اور قطع تعلقات کو ناپسند فرمایا ہے۔
خاندان اور ارد گرد بسنے والے لوگوں کے درمیان تعلقات، انسانی زندگی کا ایک انتہائی گراں قدر پہلو ہے۔ اس مسلمہ امر کے باوجود دنیا کے کمیونیٹی حصوں میں حالیہ دو تین عشروں میں خاندانی مراسم اور کمیونیٹی تعلقات میں زوال آیا ہے، جب کہ مشترکہ خاندانی نظام کئی خوبیوں کا حامل ہے۔ اس میں بڑے بوڑھوں کا تجربہ، جوانوں کی توانائی اور بچوں کی دلکشی مل کر زندگی کو بھرپور بناتی ہے اور رعنائی عطا کرتی ہے۔ تاہم اب اس نظام میں بتدریج زوال آرہا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ بدلتی ہوئی اخلاقی اقدار ہیں۔دراز عمری کے باعث بڑے بوڑھوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ ترقی یافتہ ممالک میں بڑے بوڑھوں کے لئے تحفظ گھر بنائے گئے ہیں اور ان پر خطیر رقم بھی صرف کی جاتی ہے، مگر ان کو وہ تحفظ اور دیکھ بھال جو مشترکہ خاندان میں ملتی ہے، کسی بھی دوسرے طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے علاوہ آبادی میں اضافہ اور میاں بیوی دونوں کے کام کرنے کی صورت میں زیادہ تر جوڑے ایک ہی بچہ پیدا کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ چنانچہ اس صورت میں اس بچہ کی تنہائی دور کرنے اور اس کی مناسب دیکھ بھال بھی مشترکہ خاندانوں کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔