اسمارٹ فون کی لت، منشیات سے زیادہ خطرناک جدید تحقیقات، حیرت انگیز انکشافات!

   

پروفیسر ڈاکٹر محمد سراج الرحمن
اس میں کوئی شک نہیں کہ نئی نسل کے نوجوان، نونہال، پہلے سے زیادہ ضدی Arrogdnt، بدتمیز، جلدباز، نافرمان ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ معصوم 8 تا 10 سال کے بچوں کی اندازگفتگو ایسا عجیب ہوتا ہے حقیقت کیا ہے وہ جانتا بھی نہیں لیکن ایسا بیجا برتاؤ کرتا ہے جیسے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے جس کی زندہ مثال ایک 10 سالہ بچے کی ہے جس نے ’’کون بنیگا کروڑپتی (KBC)‘‘ میں پروگرام کے بانی امیتابھ بچن کے ساتھ اس کی بیجا حرکت، بدتمیز گفتگو تھی۔ دراصل لوگ اس کیلئے کئی Comments بھی کئے لیکن اس کی اہم وجہ اسمارٹ فون کا نشہ اور غلط استعمال ہے۔
معاملہ قتل و خون کا ہو یا معمولی بحث و تکرار کا۔ میاں بیوی کے جھگڑے ہوں یا ماں باپ کی نافرمانی یا آپسی رشتوں میں دراڑ ، پڑوسیوں سے نااتفاقی حتیٰ کہ دور حاضر کی سفید کالر جرائم، سائبر کرائم، خونی رشتوں کی دوری، تلخی وغیرہ ان گھناؤنے جرائم میں سے چند ہیں جو اسمارٹ فون کا کثرت سے بیجا استعمال کا نتیجہ ہیں۔ اس کی لت ہے۔ جدید تحقیقات کے کئی بھرمار پیپرس ، کووڈ کی وباء کے بعد 40 ہزار سے زیادہ مقالے اس لعنتی لت پر لکھے جاچکے ہیں جہاں سب سے پہلے بچوں کی تربیت سے ماؤں کی لاپراوہی پھر علاج معالجہ کیلئے پریشان حالی کی واضح دلیل ہیں۔ عام غلطی جو ماؤں سے سرزد ہوتی ہے بچوں میں جو عام بیماری کا باعث ہے نونہالوں کو مائیں کھانا کھلاتے وقت گھنٹوں اسمارٹ فونس سامنے رکھنے سے ہوتی ہیں۔ پہلا ہے Devlopmental Psycology (بدتمیزی) ضدی بنادیتی ہیں۔ پرورش میں لاپراوہی، دوسرا ’سکس پاکٹ سنڈروم‘ یعنی کسی بڑے خاندان میں صرف ایک ہی یا دو بچے ہوتے ہیں، جب یہ غلطی کر بیٹھتے ہیں، جب ماں باپ غلطی سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں تو بچے کو بچاؤ کیلئے دادا ‘ دادی، نانا ‘ نانی، چچا، ماموں کا لاڈ و ناز ان کی اچھی سچی تربیت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ تیسرا Parental over Evaluation یعنی ماں باپ کا اپنے بچے کو ضرورت سے زیادہ سراہنا، تعریف کرنا اس کی ہر خواہش پوری کرنا، تربیت کیلئے سختی کرنے سے پرہیز کرنا، تب یہ بچہ اپنے آپ کو غیرمعمولی سمجھدار، اسپیشل سمجھنے لگتا ہے تو ضدی اور آلسی ہوجاتا ہے، اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ عقل مند Superior سمجھ بیٹھتا ہے۔ مشترکہ خاندانوں (Joint Families) میں بچے ایسی نفی کا شکار نہیں ہوتے ان میں نسبتاً عادت اخلاق بہتر رہتی ہے۔ Nuclear Families کے بچے اخلاق ، سمجھدار و کردار کے پیکر ہوتے ہیں۔ والدین کو خود مثال بننا پڑتا ہے جس طرح آپ بچے کو مثالی دیکھنا چاہتے ہیں اس کو Balance Parentation کہتے ہیں ۔ نہ زیادہ بھڑ کر غلطی پر، نہ زیادہ غلطی کی پشت پناہی کرو۔ اپنے بچوں کی دوسروں کے سامنے بے عزتی، گالی گلوج نہ کرو۔ بچے غلطی پر غلطی کرتے بھی ہیں تو انہیں بار بار سمجھانا پڑتا ہے، غلطی کرتا ہے تو غلطی کے نقصانات بتائیں۔ سمجھائیں، بار بار اس کو اپنے پیار محبت کے لہجہ میں، پرامید ہوکر صبر سے تربیت دیں۔
مندرجہ بالا تمام بیماریوں کی اصل وجہ جو خاموش سماج میں نونہالوں و نوجوانوں کو بدتمیز بدکردار بنارہی ہیں وہ دراصل اسمارٹ فون کی لت یا Digital Addiction جو منشیات کی لت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، گیمنگ ہیں جن کا کثرت استعمال بے قابو (Uncontroll) کردیتا ہے۔ مسلسل اسمارٹ فون کا استعمال اسی طرح دماغی مادہ Dopomine فراہم کرتا ہے جس طرح گانجہ، چرس، کوکین، شراب Opium کا استعمال کرنے سے یعنی منشیات کے استعمال کی لت سے جیسے Dopomine دماغ سے فراہم ہوکر مصنوعی نشہ کی خوشی منشیات کا عادی بے قابو حرکتیں کرکے خوشی اور اطراف کے ماحول میں کیا ہورہا ہے اس کو علم نہیںہوتا اس کو Extemal Substance Abuse کہتے ہیں، اسی طرح اسمارٹ فون کثرت استعمال، یعنی جب یہ واٹس اپ پر کچھ پوسٹ کرتا ہے، اس کے Likes زیادہ آتے ہیں اس کی فوٹو زیادہ شیئر ہوتی ہے، اچھے Comments آتے ہیں، اس پر وہ مسلسل Scroll کرتا ہے، اس کی لت اس کی خواہش کو اور بڑھاتی ہے، یہ ڈھونڈنے لگتا ہے، فلاں دوست نے Like کیا یا نہیں ۔ نوٹیفکیشن بار بار چیک کرتا ہے، حدف پورا ہوتا ہے تو وہی دماغ میں مادہ Dopamine فراہم ہوتا ہے جو منشیات کے استعمال میں ہوتا ہے اور یہ اسمارٹ فون کی دنیا میں گم ہوجاتا ہے، اپنے آپ میں مسکرانے ہنسنے یا غصہ کرنے لگتا ہے اور اس کو بھی منشیات کی لت والوں کی طرح اطراف کے ماحول کا ہوش نہیں ہوتا۔ تب یہ جلد باز، نقصان فائدہ کے احساس سے عاری، بدتمیز، ضدی نافرمانی، بداخلاقی، اپنے آپ کو Superior سمجھ بیٹھتا ہے اور تمام جرائم کی ترکیبیں، حرکتیں، چوری، قتل، بدکاری، کاہلی، آلسی ‘ماں باپ کی نافرمانی ، رشتوں میں دراڑ جیسی برائیوں کا مرتکب ہوجاتا ہے۔
اگر ہم اس درسگاہ کا پتہ لگائیں، ان نوجوانوں کی قربانیاں ‘تاریخ اسلام گواہ یہی امت کے نوجوانوں کے بارے میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایہ کہ یہ میرا اثاثہ (Asset) ہیں۔ بلا لحاظ وہ بادشاہ ہوں کہ گدا، امیر ہوں کہ غریب، حاکم ہوں کہ محکوم، زاہد ہو یا کاروباری، قاضی ہوں یا گواہ، غازی ہو یا شہید، ان میں اصلاف کی زندگیاں نمونہ تھیں۔ اخلاق کی رو ، قربانی کا ولولہ، خلق کی ہدایت اور رہنمائی کا جذبہ، نوجوانوں میں بالآخر اللہ کی رضا طلبی کا جوش، نوجوانوں میں اگرچہ راستوں، رنگتوں اور مزاجوں میں اختلاف تھا مگر ایک اللہ، ایک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ایک کتاب اللہ کے مطالبہ پر لبیک کہتے، خوفِ خدا، فرمان خداوندی پر سرنگوں ہوجاتے تب ان کے نام کی اونچائی حق کی ترقی کے گن ساری روئے زمین پر گائے جاتے۔ آج بھی اللہ تعالیٰ کا وہی وعدہ ہے بس ہمیں بحیثیت والدین رہبری، بحیثیت دردمند قوم ملت، رہنمائی، صبر، استقامت، حکمت، دانائی سے سدھار کے مسلسل طریقے، وسائل، بزور قلم، زبان، استعمال کرتے ہوئے راہ راست کی دعا بھی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے قوم و ملت کے علمبردار نوجوانوں کے مستقبل کو سنہرا کردے۔ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔