اسمبلی اجلاس میں وقف بورڈ سے متعلق امور کی حکومت کو وضاحتی رپورٹ

,

   

ملازمین کا پروموشن قواعد کے مطابق، گاڑیوں کے بغیر ڈرائیورس کا الزام غلط، سکریٹری اقلیتی بہبود کو رپورٹ حوالے
حیدرآباد۔ 18 مارچ (سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ نے اسمبلی اجلاس میں بورڈ سے متعلق اٹھائے گئے موضوعات کے سلسلہ میں حکومت کو رپورٹ پیش کی ہے جس میں بورڈ کے حالیہ فیصلوں کو قواعد کے مطابق قرار دیتے ہوئے الزامات کو مسترد کردیا گیا۔ واضح رہے کہ اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں مجلس کے رکن اسمبلی اکبر اویسی نے وقف بورڈ میں حالیہ پروموشن کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ وقف بورڈ میں بے شمار بے قاعدگیوں اور جائیدادوں کے تحفظ میں ناکامی کا الزام عائد کیا تھا۔ سکریٹری اقلیتی بہبود احمد ندیم کو 11 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ حوالے کی گئی جس میں اے پی وقف ریگولیشنس 1963ء کے تحت ملازمین کو ترقی دیئے جانے کا دعوی کیا گیا ہے۔ بورڈ نے 27 جنوری کو منعقدہ اجلاس میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کرتے ہوئے 6 سپرنٹنڈنٹس، 4 سینئر اسسٹنٹس، 23 جونیئر اسسٹنٹس اور 5 کمپیوٹر آپریٹرس کو ترقی دیئے جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسمبلی میں کہا گیا کہ اسسٹنٹ سکریٹری عہدے کے لیے کم از کم قابلیت گریجویشن ہونا چاہئے لیکن وقف بورڈ نے 10 ویں جماعت کی قابلیت رکھنے والوں کو بھی اسسٹنٹ سکریٹری کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے۔ بورڈ نے اپنی وضاحت میں کہا کہ اے پی وقف ریگولیشنس 1963ء جسے تلنگانہ وقف بورڈ نے 23 مئی 2017ء کو اختیار کیا تھا، اس کے تحت پروموشن کے لیے سینیارٹی اور میرٹ کے علاوہ فٹنس کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ تعلیمی قابلیت کا کوئی تذکرہ نہیں لہٰذا وقف بورڈ نے جن ملازمین اور عہدیداروں کو ترقی دی ہے وہ قواعد کے عین مطابق ہے۔ بورڈ میں جائیدادوں کے موقف اور کیڈر اسٹرینتھ کے اعتبار سے پروموشن دیا گیا۔ 6 سپرنٹنڈنٹس کو اسسٹنٹ سکریٹری کے عہدے پر ترقی دی گئی جن میں دو کی قابلیت ایس ایس سی، دو انٹرمیڈیٹ اور ایک گریجویٹ ہیں جبکہ ایک سپرنٹنڈنٹ میں ہندی پنڈت ڈگری کو گریجویشن کے مماثل ہونے کا دعوی کیا ہے۔ بورڈ میں گاڑیوں کے بغیر دو ڈرائیورس بھاری تنخواہوں کے ساتھ کام کرنے سے متعلق الزام پر وضاحت کی گئی کہ وقف بورڈ میں چار گاڑیاں ہیں جن میں ایک اننوا اور 3 بولیرو گاڑیاں شامل ہیں۔ ان کے لیے 5 ڈرائیورس کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ بورڈ نے بتایا کہ 33 اضلاع میں وقف فنڈ اور وقف اداروں کے کرایہ جات کی وصولی کے لیے صرف 12 انسپکٹر آڈیٹرس موجود ہیں۔ ہر ایک کو ایک سے زائد اضلاع کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ کرایہ کے بقایا جات کی وصولی کے ل یے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں۔ اقلیتی اقامتی اسکولوں کے لیے وقف اراضی کے بارے میں بورڈ نے کہا کہ 27 جنوری کو قرارداد کی منظوری کے ذریعہ بعض وضاحتیں طلب کی گئی ہیں اور اقامتی اسکول سوسائٹی نے جواب داخل کیا ہے جسے ضروری کارروائی کے لیے آئندہ بورڈ اجلاس میں رکھا جائے گا۔ بورڈ نے 401 اوقافی اداروں کو مرمت اور مینٹیننس کے لیے گرانٹ ان ایڈ کے طور پر 51 کروڑ 62 لاکھ 12 ہزار روپئے جاری کئے ہیں۔ بورڈ نے عاشورخانہ نعل مبارک بیگم پیٹ، حکیم بشیر احمد وقف خیریت آباد، درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ، درگاہ حضرت سعد اللہ حسینیؒ بڑا پہاڑ، درگاہ حضرت مخدوم بیابانیؒ آلور، وقف اراضی سلطان بازار، مسجد عنبر علی پنجہ گٹہ، واسرائے ہوٹل ٹینک بنڈ، درگاہ حضرت میر محمود عطاپور، وقف اراضی نرساپور میدک، وقف اراضی مامڑپلی، وقف اراضی مہیشورم، درگاہ حضرت شاہ راجو قتال حسینیؒ، درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ، درگاہ حضرت سالار اولیاءؒ حفیظ پیٹ، وقف اراضی عنبر پیٹ، درگاہ حضرت میرمومن چپؒ، مسجد عالمگیر گٹلا بیگم، مسجد الماس پیٹ نلگنڈہ اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رباط کے تحفظ کے بارے میں تازہ ترین موقف پیش کیا۔ واضح رہے کہ اسمبلی میں وزیر اقلیتی بہبود نے وقف بورڈ کے امور کی جانچ کرتے ہوئے کارروائی کرنے کا تیقن دیا تھا۔