اسمبلی انتخابات … مسلمانوں کے فہم و فراست کا امتحان

   

محمد نصیر الدین
ریاست میں اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے، انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ ہر سیاسی جماعت حکومت سازی کا دعویٰ کرتے ہوئے عوام کو رجھانے اور لبھانے کیلئے بے شمار اعلانات کررہی ہے۔ برسر اقتدار بی آر ایس اپنی کارکردگی اور فلاحی اسکیمات کو بنیاد بناکر تیسری مرتبہ حکومت سازی کا استحقاق جتارہی ہے۔ حکومت سازی کی دوسری دعویدار کانگریس پارٹی ہے جو پڑوسی ریاست کرناٹک میں تشکیل حکومت کے بعد عوام میں تبدیلی کی لہر بیدار کرتے ہوئے حکومت تشکیل دینے کا دعویٰ کررہی ہے۔ تیسری طرف بی جے پی ہے جو نفرت کی سیاست، نظریات اور پالیسیوں کے سہارے سے تشکیل حکومت کا خواب دیکھ رہی ہے۔
ریاست میں یوں تو مسلم آبادی 12 فیصد بتائی جاتی ہے اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ کوئی 40 انتخابی حلقوں میں مسلمانوں کی قابل لحاظ تعداد پائی جاتی ہے اور اگر مسلمان متحدہ طور پر کسی ایک پارٹی کو ووٹ ڈالتے ہیں تو اس پارٹی کیلئے تشکیل حکومت آسان ہوجاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں مسلمان کس کے حق میں رائے دہی کا استعمال کریں؟۔ برسراقتدار پارٹی کی دس سالہ کارکردگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس حکومت نے مختلف فلاح و بہبود کی اسکیمات پر ہزاروں لاکھوں کروڑ خرچ کردیئے لیکن عوامی خزانہ کی ان بھاری رقومات سے حقیقی مستحقین کم ہی مستفید ہوسکے زیادہ تر پارٹی کارکنوں اور ان کے سفارشی لوگوں تک ہی ان اسکیمات کو فائدہ پہنچا۔ مسلمانوں کا مختلف اسکیمات سے استفادہ محض برائے نام ہی رہا۔ مختلف بہانوں سے مسلسل مساجد کی شہادت اور حکومت کا صرفِ نظر ایک سوالیہ نشان بنا رہا۔ مسلمانوں کی لاکھوں کروڑوں روپئے کی وقف جائیدادوں کے ریکارڈز کو بنائکسی جواز کے مُہربند کردیا گیا اور عدالتوں میں دانستہ طور پر مختلف مقدمات میں شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
وقف بورڈ کو جوڈیشیل اختیارات دینے کی بات اب تک سرد خانہ کی نذر ہوگئی۔ 50 سے زائد اقلیتی اداروں کو بند کردیا گیا۔ ریاست کے قدیم دواخانہ عثمانیہ کو تباہی و بربادی کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ ڈبل بیڈ روم مکانات تو بنائے گئے لیکن آبادی کے تناسب سے مسلم طبقہ کو کوئی حصہ داری نہیں دی گئی۔ اسلامک سنٹر ، اجمیر میں رباط جیسے وعدے محض کانوں کو خوش کرنے کا ذریعہ بن گئے۔ پرانے شہر میں میٹرو ریل کا بار بار محض افتتاح ہوتا رہا لیکن عملاً کچھ نہ ہوسکا۔ پرانے شہر کے علاوہ ریاست کے مسلم غالب آبادی والے شہروں اور مقامات کو ’’سلم ‘‘ بننے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ ریاست کی جامعات اور دیگر اداروں TSPC، TSRTC وغیرہ میں کوئی نمائندگی نہیں دی گئی۔ علاوہ ازیں ریاستی کونسل اور راجیہ سبھا میں نمائندگی کو صفر کردیا گیا۔ پولیس مشنری کو مرکز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ معمولی واقعات کو بہارنہ بناتے ہوئے معصوم لوگوں کی گرفتاری عام ہوگئی۔ علاوہ ازیں آلیر انکاؤنٹر کی اب تک نہ تحقیقات ہوئی اور نہ مجرمین کو سزا دی گئی۔ ملت کی تمام ہی دینی، مذہبی ، فلاحی اور سماجی تنظیموں کو نظرانداز کردیا گیا حتیٰ کہ کسی کو ملنے اور نمائندگی کا بھی موقع نہیں دیا گیا بلکہ اس خوش فہمی کا برسر اقتدار طبقہ شکار رہا کہ مقامی جماعت سے روابط کے علاوہ دیگر سے ربط کی کوئی حاجت یا ضرورت نہیں ہے۔ مرکزی حکومت کے عوام دشمن خاص کر اقلیت مخالف فیصلوں میں بھرپور تائید و حمایت کی گئی مثلاً نوٹ بندی، GST ، طلاق ثلاثہ، آرٹیکل 370 وغیرہ بلکہ بی آر ایس کے سربراہ نے مودی جی کو اپنا خاص دوست قرار دیا۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ بی جے پی آج ملک کے آئین، قانون کی حکمرانی، جمہوریت کی بقاء اور اظہار رائے و مذہبی آزادی کو ختم کردینے کے درپہ ہے۔ دوسری طرف اقلیتوں کی شناخت ، مذہبی تشخص اور جان و مال کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہے۔ چنانچہ ماب لنچنگ کے واقعات، مساجد پر حملے اور بلڈوزر کی سیاست مسلمانوں کے وجود کے لئے سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ ایسے میں کانگریس سمیت ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں نے مل کر ‘INDIA’ اتحاد قائم کیا ہے تاکہ ملک کی سلامتی، قانون کی حکمرانی، جمہوریت کی بقاء اور آزادیٔ رائے و آزادیٔ مذہب کو باقی رکھا جاسکے، لیکن افسوس کہ بی آر ایس اور مقامی جماعت نے تیسرے محاذ کا شوشہ چھوڑ کر بالواسطہ طور پر بی جے پی کی تائید وحمایت کی کوشش کی ہے۔ اس سے زیادہ موقع پرستی اور مفاد پرستی کیا ہوسکتی ہے کہ اپنے اقتدار کی خاطر ملک کی سلامتی اور ملک کے مفاد کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ مقامی جماعت نے بھی مختلف ریاستوں میں سیکولر پارٹیوں کو شدید نقصان سے دوچار کیا ہے۔ مقامی جماعت کے قائد اپنے زوردار بھاشن کے ذریعہ کامیابPolarisation کے نقیب بن گئے ہیں اور ان کے بھاشن سے ہندو ووٹرس متحد ہونے لگے ہیں جس کی وجہ سے بی جے پی کو مضبوط ہونے کا موقع مل رہا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے تمام امن پسند عوام‘ آئین اور قانون کی حکمرانی تسلیم کرنے والے لوگ آگے بڑھیں اور اسمبلی ہو یا پارلیمنٹ ‘INDIA’ اتحاد کو ہر جگہ کامیاب کرانے کی کوشش کریں۔ جیسے کہ کہا جارہا ہے یہ الیکشن SemiFinal ہے اور آنے والے پارلیمنٹ الیکشن Final ہوں گے۔ محبِ وطن شہری اور فکرمند دانشوران و قائدین کی ذمہ داری ہے کہ بی جے پی اور اس کی معلنہ و غیر معلنہ حلیف جماعتوں کو شکست دینے کیلئے اُٹھ کھڑے ہوں اور ملک کو امن، چین، خوشحالی، فرقہ وارانہ اتحاد و ہم آہنگی عطاء کرنے کیلئے جدوجہد کریں۔