سبھاش گٹاڈے
’’حجاب‘‘ کی جب بات آتی ہے تو بی جے پی اسے سکیولر اسکولوں میں دراندازی قرار دیتی ہے۔ حجاب کرنے والی طالبات کو اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہونے سے روکنے کی تائید کرتی ہے، لیکن اُنہیں سکیولر تعلیمی اداروں میں جب بھگوت گیتا پڑھانے کی بات آتی ہے تو وہ اس کا خیرمقدم کرتی ہے۔ اس طرح کے تضاد سے بی جے پی کی منافقت اور اس کی منفی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے۔ سال 2018ء میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی آر ٹی) کو اسکولی تعلیم پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو مشورہ دینے اور ان کی اعانت کرنے کا کام تفویض کیا گیا۔ اس موقع پر ایک کتابچہ یا دستورالعمل بھی شیئر کیا گیا جس میں اقلیتی طلبہ کی ضروریات کے بارے میں تفصیل سے خیال ظاہر کیا گیا تھا۔ حال ہی میں حکومت ِ کرناٹک نے اسکولی نصاب میں بھگوت گیتا متعارف کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے بعد جب این سی ای آر ٹی کے مینول کو دوبارہ پڑھنے کا موقع ملا تب یہ انکشاف ہوا کہ حکومت نے این سی آر ٹی کے تحت جو مقاصد بیان کئے، اس میں اور زمینی حقیقت یا موجودہ صورتحال کے درمیان کافی فرق پایا جاتا ہے۔ حکومت کرناٹک نے اسکولی نصاب میں گیتا متعارف کروانے کا فیصلہ گجرات حکومت کی جانب سے گیتا پڑھائے جانے کے فیصلے کے ایک دن بعد کیا۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ گجرات حکومت نے پرجوش انداز میں یہ اعلان کیا کہ آئندہ تعلیمی سال سے ریاست کے اسکولوں میں بھگوت گیتا پڑھائی جائے گی۔ دونوں ریاستوں کی حکومتوں کے اس اعلان سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جو فیصلے کئے گئے ہیں، ان سے تاریخ کو سمجھنے میں غلطی کا اظہار ہوتا ہے جس میں یہ سمجھ لیا گیا کہ ہندوستان زمانہ قدیم سے ایک ہندو ملک ہے۔ اس قسم کی تاریخ میں جین ازم، بدھ ازم، آجی وکاس اور دیگر مذاہب اور معاشرے دکھائی نہیں دیتے جو اس سرزمین پر پھلے پھولے تھے۔ مجوسیت، یہودیت، عیسائیت اور مسلمانوں کو بھی اس قسم کی تاریخ میں نظرانداز کردیا گیا۔ حکومت کرناٹک کا من مانی فیصلہ دراصل بناء کسی مشاورت کے لیا گیا فیصلہ ہے، جس سے اس کی چنندہ بھول کا اندازہ ہوتا ہے۔ بی جے پی کئی قائدین نے یہ کہتے ہوئے حجاب پر پابندی کو معقولیت پر مبنی قدم قرار دیا تھا۔ مذہبی علامتوں یا شعائر کیلئے اسکولوں میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان لوگوں نے حجاب پر پابندی کی پرجوش انداز میں تائید کی۔ حجاب پر پابندی کی وکالت کرتے ہوئے پارٹی اور نہ ہی حکومت کو یہ یاد رہا کہ ان لوگوں نے ہی یہ کہا تھا کہ اسکولوں میں تعلیم دی جاتی ہے، مذہبی درس نہیں دیا جاتا اور مذہبی علامتوں کیلئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اچانک بی جے پی اور خاص طور پر ہندو راشٹر کے کٹر حامیوں میں یہ تبدیلی دیکھ کر حیرت ہوئی اور سب سوچنے لگے کہ آخر یہ ہندوتوا کے کٹر حامی کس طرح سکیولر جنگجوؤں میں تبدیل ہوگئے۔ تعلیم انسان کو صحیح معنوں میں انسان بناتی ہے، اسے جینے کا سلیقہ سیکھاتی ہے یا معلومات کا خزینہ حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ انفارمیشن، اقدار، عقائد، آداب و مہارتوں وغیرہ کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہر چیز کا آغاز سیکھنے سے ہوتا ہے اور سیکھنا باہمی رابطے کے ذریعہ ہوتا ہے۔ پہلے والدین انسان کو تربیت دیتے ہیں، پھر تعلیمی ادارے اسکولس وغیرہ ان کی شخصیت کو نکھارتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیکھنے اور سکھانے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ تعلیم کا مقصد جہالت کا خاتمہ ہوتا ہے، لیکن آج اس کا تصور ہی بدل کر رکھ دیا گیا ہے۔ بی جے پی کبھی تعلیم کو مذہبی رنگ دینے کی شدت سے مخالفت کرتی ہے اور جب اپنی بات آتی ہے تو اسکولوں میں بھگوت گیتا پڑھانے کی بات کرتی ہے۔ ہندوستان ایک ہمہ مذہبی سکیولر ملک ہے اور یہاں وہ اسکولس میں مذہبی تعلیم کی وکالت کرتی ہے، لیکن وہ ایک مذہب کی تعلیم دینا چاہتی ہے جبکہ ہندوستان جیسے جمہوری و سکیولر ملک میں اس طرح کی حرکات ٹھیک نہیں ہیں بلکہ اس سے ملک کے سکیولر اقدار کو نقصان پہنچتا ہے۔ کرناٹک حکومت ہو یا حکومت ِ گجرات یا حکومت ِ مدھیہ پردیش ان سے اب یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ہندوستان ایک سکیولر ملک ہے، کیا سکیولر ملک اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم دی جاسکتی ہے۔ آج بلالحاظ مذہب و ملت طلباء و طالبات کو اپنے ملک و قوم کی بھلائی اس کی ترقی کو ترجیح دینی ہوگی۔ انہیں یہ سوچنا ہوگا کہ اپنے مذہب اور عقیدہ یا مذہبی تعلیمات سے کس طرح ملک اور اس کے اتحاد کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ اسکولوں میں مذہبی تعلیم کی باتیں کرنے والے یہ جان لیں کہ مذہبی تعلیم کیلئے آر ایس ایس اور دیگر منفرد مذہبی رہنماؤں کے قائم کردہ لاکھوں ادارے صرف ایک کمیونٹی کو نشانہ بناکر اپنا اُلو سیدھا کرنے کیلئے مذہب اور مذہبی تعلیم کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔ تعلیم ایسی ہونی چاہئے جس سے اخوت و بھائی چارگی اور انسانیت مستحکم ہو نہ کہ سماج مذہب کی بنیاد پر بٹ جائے۔ مرزا غالبؔ نے ایک بار کہا تھا: ’’اِنسان سچائی کی تلاش میں گیا اور جب وہ اپنی جدوجہد میں تھک گیا تب اس نے منادر، مساجد اور گرجا گھر بنالئے‘‘۔