اسکولی انتظامیہ کی لوٹ کھسوٹ

   

اور اساتذہ کا بدترین استحصال، سدباب ناگزیر

محمد اسد علی ایڈوکیٹ
معاشرے کے تمام افراد کو مساویانہ حقوق کی فراہمی کے ذریعہ جمہوریت کے سماجی ڈھانچے کو مستحکم بنانا یوم آزادی کے وقت سے تسلیم کردہ بات رہی ہے۔ ہمارے دستور میں بیان کردہ اسٹیٹ پالیسی کے ہدایتی اصولوں میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 10 سال کی عمر تک تمام بچوں کو حکومت مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ دستور کی (86 ویں ترمیم) ایکٹ 2002 کے ذریعہ دستور میں Article 21A کو شامل کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت قانون اور خود اس کی جانب سے 6 سال سے 14 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرلے گی۔ دستور کی دفعہ 21A کو روبہ عمل لانے کے لئے قانون کا نفاذ ناگزیر ہے۔ اسی مطابقت میں پارلیمنٹ میں بچوں کے لئے مفت اور لازمی تعلیمی پل کو متعارف کروایا گیا۔ ابتدائی تعلیم کا سب سے اہم رول جس کا مقصد تمام افراد کو مساویانہ موقعوں کی فراہمی ہے جس کے ذریعہ جمہوریت کے سماجی ڈھانچہ کو مستحکم بنانا ہے اسٹیٹ پالیسی کے ہدایتی اصول ہمارے دستور میں بیان کیا گیا ہے جس میں حکومت 14 سال کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ گزشتہ برسوں کے دوران اس ملک کے
Elementary Schools
میں جگہ اور عددی طلباء کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تاہم ابتدائی تعلیم کا مقصد بہ دستور ہماری پہونچ میں نہیں ہے بچے بالخصوص بنیادی ضروریات سے محروم گروپس اور کمزور طبقات کے بچے ابتدائی تعلیم کی تکمیل سے قبل اسکول سے نکل جاتے ہیں اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے مزید برآں علمی حصول کی تکمیل میں بھی ہمیشہ ان بچوں کے معاملے میں پوری طرح طمانیت بخش نہیں رہا ہے جو اپنے ابتدائی تعلیم کو مکمل کرتے ہیں
(Eighty-sith amendment) Act 2002
کی دفعہ 21A کے ذریعہ 6 سال سے 14 سال کے عمر کے تمام بچوں کے لئے مفت اور لازمی تعلیم کی گنجائش فراہم کی گئی جو بنیادی حق بتایا گیا ہے جبکہ اس کارروائی کی تکمیل اس انداز میں ہوئی جیسا کہ حکومت اور قانون اس کا یقین کرسکتے۔ نتیجتاً بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم حق کا بل 2008 کے نفاذ کی تجویز پیش کی گئی جس کے ذریعہ یہ بتایا گیا ہے کہ ہر بچے کو کسی بھی رسمی اسکول میں جو چند لازمی قواعد اور معیارات کی تکمیل کرتا ہے وہاں ہر بچے کو کل وقتی ابتدائی تعلیم فراہم کی جانی چاہئے جو اطمینان بخش اور مساویانہ معیار کی ہو۔ متعلقہ حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لازمی تعلیم فراہم کرلے اور ابتدائی تعلیم میں داخلوں، حاضری، اور اس کی تکمیل کی گنجائش فراہم کرلے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ مناسب رہے گا کہ تعلیم کو شرمناک حد تک تجارتی رنگ دے رہا گیا ہے خاص طور پر نامی گرامی اسکولوں میں داخلے کے نام پر لاکھوں روپے ڈونیشن ہتھیا لئے جاتے ہیں اور بے چارے بے بس ٹیچروں کو انتہائی حقیر معاوضہ دیا جاتا ہے جو ان کی گذر بسر کے لئے انتہائی ناکافی ہوتا ہے اساتذہ بے بسی کے ساتھ اسکولی انتظامیہ کے رحم و کرم پر زندگی گذارتے ہیں اور دو وقت کی روئی کے لئے انہیں سخت محنت کرنی پڑتی ہے جس کا کوئی صلہ نہیں، خاص طور پر بڑے نامی گرامی اسکولوں میں داخلے کے وقت ناقابل تصور رقم بطور ڈونیشن کے علاوہ دوسرے فیس بھی حاصل کی جاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض والدین مجبور اور بے بس ہو کر ان اسکولوں کی ’’ہوس ذر‘‘ کی تکمیل کرتے ہیں ان اسکولوں کا بعض انتظامیہ بہتر دولت حاصل کرکے انتہائی پرتعیش اور پر آسائش اور نام نمود کی زندگی گذارتا ہے جبکہ ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اگر موجودہ حالت برقرار رہے تو یقینی طور پر عوام (D.E.O) متعلقہ عہدیداروں سے رجوع ہوکر اس فتنہ کی سرکوبی کرواسکتے ہیں لیکن توقع ہے کہ ایسی نوبت نہیں آئے گی بعض حریص ولالچی اسکولس اساتذہ اور تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں بچوں کے سرپرستوں کا خیال کریں گے اور اپنی پر آسائش زندگی کے علاوہ دوسروں کی تکلیف دہ زندگی اور زبوحالی کا بھی خیال کریں گے۔ مزید تفصیلات کے لئے اس نمبر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔