اس زمیں پر کبھی نفرت کو نہ پلنے دیںگے

   

شجاعت علی ،آئی آئی ایس ‘ ریٹائرڈ
بدگمانی ایک ایسا بوجھ ہے جس کے چلتے ہمارا ماضی تارتار ہوجاتاہے‘ مستقبل خطرہ کا شکار ہوجاتا ہے اور حال بدحال ہوجاتاہے۔ بس ایسی ہی کیفیت مہاتما گاندھی کے خلاف جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے اس ریمارکس سے کہ ’’مہاتما گاندھی انگریزوں کے ایجنٹ تھے‘ ظاہر ہوتی ہے۔ انگریزوں کے ایجنٹ کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو والے فلسفہ کو مستحکم کررہے تھے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ مہاتما گاندھی نے ہندو۔ مسلم اتحاد کو پروان چڑھانے کیلئے اپنی زندگی ہی قربان کردی۔ ایسی عظیم عالمی شخصیت کے بارے میں اس طرح کے حملے کوئی بھی باوقار سماج قبول کرنے کو تیار نہیں ہوسکتا۔ وہ مہاتما گاندھی جنہوں نے سیاسی انقلاب کے ساتھ ساتھ سماجی انقلاب کیلئے اپنی ساری زندگی داؤ پر لگادی تھی‘ وہ بھلا انگریزوں کے ایجنٹ کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے انہیں ہندو وادی بھی قرار دیا ہے۔ اگر وہ ہندو وادی ہوتے تو کیسے ہندو بھائیوں سے یہ خواہش کرتے کہ وہ گیتا کے ساتھ ساتھ قرآن بھی پڑھیں۔ مسلم بھائیوں سے وہ یہ کیسے کہتے کہ وہ قرآن کے ساتھ ساتھ گیتا بھی پڑھیں۔ جہاں وہ رام راج کی بات کرتے تھے وہیں پر حکمرانوں کو یہ بھی مشورہ دیتے کہ اگر صحیح حکمرانی کرنا ہوتو خلیفہ عمرؓ کی پیروی کرو۔ مہاتما گاندھی یقیناً کٹر مذہب پرست تھے‘ اس کا مطلب تو یہ نہیں تھاکہ وہ کسی ایک ہی مذہب کو عظیم سمجھتے تھے۔ ان کا جو رام راج کا فلسفہ تھا اس میں ہر ایک عقیدے کیلئے مکمل آزادی تھی۔ ان کے جو عبادتی اجلاس ہوتے تھے اس میں نہ صرف گیتا پڑھی جاتی تھی بلکہ وہاں سے مقدس قرآن‘ بائبل اور گروگرنتھ کی صدائیں بھی آتی تھیں۔ وہ اپنی زندگی ہی میں اس الزام پر بڑے رنج کا اظہار کرتے تھے کہ انہیں صحیح تناظر میں کیوں پیش نہیں کیاجارہاہے۔ مہاتما گاندھی کے والد کا یہ تاثر تھاکہ مسلمان ارض ہند کا لازمی حصہ ہیں اور وہ انگریزوں کو ہندو۔ مسلم بھائی چارہ کے معاملہ میں ایک خطرہ قرار دیتے رہے۔ مہاتما گاندھی نے بچپن ہی سے اپنا بہت سارا وقت مسلم دوست احباب میں گزارا تھا۔ مہاتما گاندھی ہمیشہ سے ہی اس بات کی تلقین کرتے رہے کہ مذہبی کٹر پن غیرمذہبیت کی تعریف میں آتاہے۔ وہ انتہا پسند ہندوئوں کو بگڑے ہوئے ہندو اور انتہا پسند مسلمانوں کو مذہبی راستے سے بھٹکے ہوئے مسلم قرار دیتے تھے۔ ان کا یہ ماننا تھاکہ ان دونوں ہی کا ان کے صحیح مذہبی نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب نوکھلی میں فساد ہوا جہاں مسلمانوں نے ہندوئوں پر حملہ کیاتھا اور پھر بعد میں جب بہار میں ہندوئوں نے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایاتھا تو غمزدہ اور افسردہ باپو نے آنکھوں میں آنسو لیے یہ کہاتھاکہ’’ ہمارا گھر انتشار کا شکار ہوگیاہے، ہندو اور مسلمان ایک دوسرے مقام کو نقل کررہے ہیں‘‘۔ وہ فساد زدہ ان دونوں ہی علاقوں کیلئے روانہ ہوئے اور دونوں ہی فرقوں کو تسلی دی‘ اتحاد اور اتفاق کی تلقین کی اور یہ کہاکہ انسانوں سے پیار کرنا ہی سب سے بڑی پوجا ہے۔ ایسی عظیم شخصیت کے بارے میں جب کہیں سے کوئی نازیبا بات پڑھنے یا سننے میں آتی ہے تو قلبی تکلیف ہوتی ہے۔ مہاتما گاندھی نے جہاں بار بار رام راج کی بات کی ہے تو ان کے ذہن میں ہندو طرز حکومت یا مسلم طرز حکومت نہیں تھا بلکہ ان کا ایک ایسا خواب تھا جہاں پر لوگ بھوکے پیاسے نہ رہیں‘ جہاں پر تعصب کی کوئی جگہ نہ ہو‘ جہاں پر ایک دوسرے کے مذہب اور ایک دوسرے کے جذبات کو مساوی عزت ملے‘ جہاں پر ایک علاقے کو دوسرے علاقے پر فوقیت نہ ہو‘ جہاں پر ہرزبان کو‘ ہرکلچر کو پنپنے کا موقع ملے‘ جہاں پر ظلم نام کی کوئی شئے دکھائی نہ دے‘ جہاں پر عورتوں کا احترام ہو اور جہاں پر امن‘ شانتی اور بھائی چارہ کا ماحول ہو۔ جہاں تک رام کا تعلق ہے رام کو ہندوستان کا ہرفرقہ عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتاہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے امام ہند کے عنوان پر رام کی شان میں ایک نظم بھی لکھی ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ نہ تو ہندوستان کا ہندو متعصب ہے‘ نہ ہی ملک کا مسلمان تنگ نظر۔ ہم سب اس عظیم مادر وطن کے فرزند ہیں اور ہمیں اس کے ذرہ ذرہ سے پیار ہے۔ ملک کا ذرا ذرا ہمیں اناج دیتاہے اور اسی اناج کی وجہ سے ہمارے کسان خوشحال رہتے ہیں۔ سنسکرت میں دیوتا کے معنے دینے والے کے ہیںاور اسی پس منظر میں علامہ اقبالؒ یہ فرماتے ہیں کہ
پتھر کی مورتوں میں سمجھاہے تو خدا ہے
خاکہ وطن کا مجھ کو ہرذرہ دیوتاہے
مہاتما گاندھی علامہ اقبالؒ کی شاعری سے بیحد متاثر تھے۔ 1920 میں باپو نے علامہ اقبالؒ کے نام ایک خط لکھاتھا جس میں انہوں نے اقبال سے خواہش کی تھی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی باگ ڈور سنھالیں۔ وہ اپنے خط میں اس طرح رقم طراز ہوئے تھے کہ ’’ جامعہ ملیہ اسلامیہ آپ کو آواز دے رہی ہے کہ آپ اس کی ذمہ داری سنبھال لیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی نکھری قیادت میں یہ جامعہ بیحد ترقی کرے گی۔ حکم اجمل خان‘ ڈاکٹر انصاری اور بالخصوص علی برادرس بھی آپ سے یہ ذمہ داری قبول کرنے کی خواہش کرتے ہیں۔‘‘ مہاتما گاندھی کے اس خط کے جواب میں علامہ اقبالؒ نے انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ لکھاتھا کہ ’ میں اس ذمہ داری کیلئے درکار تمام صلاحیتوں کا حامل نہیں ہوں۔‘ مہاتما گاندھی اتنے وسیع النظر تھے کہ انہوں نے اس بات کی ضرورت پر زور دیاکہ جامعہ ملیہ سے’’ اسلامیہ‘‘ کا لفظ نہ نکالا جائے۔ یہی نہیں بلکہ مہاتما گاندھی نے اپنے ایک فرزند کو اس جامع میں داخلہ بھی دلوایا تھا تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم یہیں سے حاصل کرسکیں۔
بہرحال اتنی واضح سچائیوں اور بے انتہا مستحکم حقائق کے باوجود اگر کوئی شخص چاہے اس کے کوئی بھی منصوبے ہوں‘ بابائے قوم کے بارے میں اس طرح کے سنگین ریمارکس کرتاہے تو یہ نہ صرف ہمارے ملک کیلئے بلکہ ایک شائستہ سماج کیلئے کوئی اچھے آثار نہیں ہیں۔ اگر اس طرح کے سلسلوں کو بند نہیں کیاجاتاہے تو لوگ آزادی اظہار کے نام پر ہماری مقدس مذہبی شخصیتوں کے خلاف بھی غیراخلاقی باتیں کہہ سکتے ہیں جن پر روک لگانی ضروری ہے۔ ہمارا ملک آج سینکڑوں چیالنجس سے گزر رہاہے۔ ہمیں فرقہ پرستانہ ذہنیت سے نمٹناہے‘ غربت‘ افلاس اور تنگ دستی سے لڑناہے‘ علم کے زیور کو عام کرناہے۔ اگر ہم ان امور کی طرف توجہ دینے کے بجائے غیرضروری تنازعات میں گھرنے لگیں گے تو ہمارے ملک کی مشکلیں اور بھی بڑھیںگی۔ اگر باپو ہندو وادی ہوتے تو کیا وہ ایشور اللہ تیرو نام کہتے؟۔ شاید ایسے ہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فرزند جامعہ عثمانیہ امیر احمد خسرو نے اپنی ایک طویل نظم میں بہت ساری اہم باتوں کو اجاگر کیا ہے۔اس نظم کے چند اشعار ہمارے ملک کے حالات کو درشاتے ہیں، جن پر ہمیں بار بار غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس زمیں پر کبھی نفرت کو نہ پلنے دیںگے
ایکتا کے کبھی سورج کو نہ ڈھلنے دیںگے
پیار کے دیش کو برباد نہ ہونے دیںگے
حسن کو مائل فریاد نہ ہونے دیںگے
ظلمت شب کو اجالوں سے بدل ڈالیںگے
پھوٹ کے دیو کی ہستی کو مسل ڈالیںگے
ایک ہوکر ابھی حالات بدلناہے ہمیں