اشفاق اللہ خان : آزادیٔ ہند کی خاطر جان دی بہ عمر 27 سال

   

عرفان جابری

جواں سال مجاہد آزادی اشفاق اللہ خان … یہ نام بیشتر معمر قارئین کرام نے ضرور سنا، یا پڑھا ہوگا لیکن نئی نسل میں بالخصوص شمالی ہند سے ہٹ کر چند افراد کو ہی ہندوستان کی آزادی کیلئے اپنی جانیں قربان کردینے والے عظیم شہیدوں میں شامل اس نڈر شخص کے بارے میں کچھ واقفیت ہوگی! اپنی منفرد قربانی کے ذریعے اشفاق خان ناقابل فراموش انقلابی بنے۔ 22 اکٹوبر کو اُن کے 120 یوم پیدائش کے موقع پر شمالی ہند میں چند مقامات پر یادگاری اجتماعات میں اُترپردیش کے سپوت کو خراج پیش کیا گیا۔ اللہ سے دعا ہے وطن کیلئے قربان ہونے والے اشفاق اللہ خان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔

حیدرآباد دکن راست طور پر کبھی بھی انگریزوں کا غلام نہیں رہا۔ اس لئے گوروں کا ہندوستانیوں پر زیادہ تر ظلم و ستم ملک کے شمالی، مغربی اور مشرقی علامتوں میں مرکوز رہا۔ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔ چنانچہ زیادہ تر مجاہدین آزادی مذکورہ خطوں سے اُبھرے، جو غلامی سے بہرصورت چھٹکارہ پانا چاہتے تھے۔ مجاہدین آزادی کو یاد رکھنے اور یاد کرتے رہنے سے متعلقہ برادری میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں ہمارا بھی حصہ رہا۔ جب تک یہ احساس پیدا نہ ہوگا، وطن کے تئیں مسلمانوں کی سردمہری ختم نہ ہوگی، اور جب تک ایسا نہ ہوگا، آپ کو اس سرزمین کی اکثریتی برادری واجبی اور غیرواجبی طور پر ضرور ہراساں کرتی رہے گی۔ حتیٰ کہ وہ ہماری شہریت پر سوال اٹھانے لگے گی حالانکہ دستور کے مطابق کسی بھی ہندوستانی جوڑے کی اولاد کو ہندوستانی سرزمین پر پیدائش کیساتھ ہی شہریت حاصل ہوجاتی ہے۔

این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) کے ذریعے مودی حکومت نے یہ کام ریاست آسام سے شروع کردیا ہے اور اس کا اگلا نشانہ مغربی بنگال ہے جہاں مسلم آبادی کا تناسب 27% سے زیادہ ہے۔ اب سے پہلے آزاد ہندوستان میں ایسا دور کبھی نہیں آیا۔ اس لئے ہندوستانی مسلمانوں کو ’ہوش کے ناخن‘ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ وہ جانیں کہ ہمارے اسلاف نے اس دھرتی کیلئے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ وہ دِل دہلادینے والا انگریزوں کا ظلم ہم کیسے فراموش کرگئے کہ اترپردیش کے کئی حصوں میں برطانوی حکمرانوں نے آزادی کی خاطر کام کرنے والے بے شمار عام مسلمانوں اور مولویوں کو موت کے گھاٹ اُتار کر نعشیں راستوں کی دونوں جانب درختوں پر لٹکایا تھا ، تاکہ دوسروں کو اس قدر خوفزدہ کردیا جائے کہ وہ آزادی کیلئے انگریز حکومت سے بغاوت کی جرأت نہ کرسکیں۔ اشفاق اللہ خان کی نعش درخت پر تو نہیں لٹکائی گئی مگر محض 27 سال کی کم عمری میں انھوں نے وطن کیلئے جس طرح جوش و جذبہ اور ہمت و استقلال کا مظاہرہ کیا، وہ یقینا آج کے دور میں نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ بے شک، آج ہندوستان کسی قوم کا غلام نہیں، لیکن اندرون ملک آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) اور اس کی سیاسی شکل بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) انڈیا کو ’ہندو راشٹر‘ کی طرف لے جاتے ہوئے بالخصوص مسلمانوں کو غلام یا کم از کم دوسرے درجہ کا شہری بنا دینا چاہتے ہیں، جس کا مجھے ثبوت دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ مودی حکومت کی دوسری میعاد کی مخالف اقلیت جارحانہ روش اور تیزی سے یکے بعد دیگر تخریبی و انتشار پسند اقدامات جگ ظاہر ہیں۔ اس پس منظر میں اشفاق اللہ خان کے بارے میں کچھ تفصیل جانتے ہیں۔
اشفاق اللہ خان 1900ء میں شاہجہاں پور میں شفیق اللہ خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ چھ بہنوں، بھائیوں میں آخری تھے۔1921ء میں گاندھی جی نے ہندوستانیوں سے اپیل کی تھی کہ حکومت کو ٹیکس ادا نہ کریں اور نہ انگریزوں کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ اس تحریک عدم تعاون نے لگ بھگ تمام ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادی کی شدید چاہ پیدا کردی۔ تاہم، ایک مقام پر شدید تشدد پیش آیا جس میں ایک پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کیا گیا اور بعض پولیس والے ہلاک ہوگئے۔ گاندھی جی تحریک عدم تعاون سے فبروری 1922ء میں دستبردار ہوگئے۔ ملک کے نوجوانوں کو کافی مایوسی ہوئی اور انھوں نے عہد کیا کہ ملک کو ممکنہ حد تک جلد آزادی دلائیں گے۔ ایسے انقلابیوں کے گروہ میں اشفاق اللہ خان شامل ہوگئے۔ شاہ جہاں پور سے ہی تعلق رکھنے والے رام پرساد بسمل ان انقلابیوں کے عسکری گروپ کے لیڈر بنے۔ اشفاق اللہ خان اور رام پرساد میں دوستی گہری ہوئی۔ رام پرساد ، آریہ سماجی جبکہ اشفاق اللہ، دیندار مسلم تھے۔ تاہم، جدوجہد آزادی کیلئے مل جل کر کام کرنے کیلئے اُن کے ٹھوس عزم کی راہ میں اُن کا مذہب حائل نہ ہوا۔ وارانسی اُن کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ پھر وہ ’ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن اسوسی ایشن‘ سے وابستہ ہوئے، جس کی تشکیل 1924ء میں ہوئی۔ سچندر ناتھ سانیال اس تنظیم کے بانی تھے، جس کا مقصد حصولِ ’آزاد ہندوستان‘ کیلئے مسلح انقلابات منظم کرنا تھا۔ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن اسوسی ایشن نے اپنی تحریک کو فروغ دینے اور اپنی سرگرمیاں انجام دینے کیلئے اسلحہ و گولہ بارود خریدنے کی خاطر انقلابیوں نے شاہجہاں پور میں 8 ؍اگست 1925ء میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا۔ کافی غوروخوض کے بعد طے ہوا کہ سرکاری خزانہ کو لوٹا جائے جو ٹرینوں کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے۔ 9؍ اگست 1925ء کو اشفاق اللہ خان اور دیگر انقلابی رام پرساد بسمل، راجیندر لہیری، ٹھاکر روشن سنگھ، سچندر بخشی، چندرشیکھر آزاد، کیشب چکرورتی، بنواری لال، مکندی لال، من متھ ناتھ گپتا نے برطانوی حکومت کی رقم لے جارہی ٹرین کو لکھنو کے قریب کاکوری میں لوٹا۔ ٹرین ڈکیتی کو ایک ماہ گزر گیا، مگر کوئی بھی ’لٹیرا‘ گرفتار نہیں ہوا، حالانکہ برطانوی حکومت نے بڑا تحقیقاتی جال بچھا رکھا تھا۔
رام پرساد کو پولیس نے 26 ستمبر 1925ء کو پکڑلیا اور جلد ہی دیگر بھی گرفتار کرلئے گئے۔ صرف اشفاق اللہ خان کو پولیس ڈھونڈ نہیں پائی۔ وہ روپوش ہوگئے تھے اور بہار سے جہاں 10 ماہ انھوں نے انجینئرنگ کمپنی میں کام کیا، بنارس (موجودہ وارانسی) کو منتقل ہوئے۔ وہ بیرون ملک انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرکے جدوجہد آزادی میں مدد کرنے کوشاں تھے۔ چنانچہ وہ دہلی گئے تاکہ ملک سے نکلنے کے جتن کئے جائیں۔ انھوں نے اپنے ایک پٹھان دوست سے مدد لی، جو اُن کا ہم جماعت رہا تھا۔ اس دوست نے اشفاق اللہ خان کو دھوکہ دیتے ہوئے پولیس کو اُن کے اتہ پتہ کے تعلق سے خبر کردی۔اشفاق اللہ خان کو فیض آباد جیل میں محروس کیا گیا اور ان کے خلاف کیس درج ہوا۔ اُن کے بھائی ریاست اللہ خان اُن کے قانونی مشیر رہے۔ جیل میں اشفاق اللہ خان قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے، اور پابند صوم صلوٰۃ رہے۔ کاکوری ڈکیتی کیس کا اختتام رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، راجیندر لہیری اور ٹھاکر روشن سنگھ کو سزائے موت سنانے کے ساتھ ہوا۔ دیگر ملزمین کو عمر قید ہوئی۔ اشفاق اللہ خان کو فیض آباد جیل میں 19 ڈسمبر 1927ء کو پھانسی دی گئی۔ یہ انقلابی نوجوان شہید اشفاق اللہ خان کہلایا اور مادرِ وطن کیلئے اپنی محبت، اپنی صحیح سوچ و فکر، اپنی غیرمتزلزل ہمت، اپنے استقلال اور اپنی وفاداری کے سبب اپنی برادری میں ناقابل فراموش ہوا۔ اشفاق اللہ خان اور اُن کے ساتھیوں کی سرگرمیوں کو ہندی فلم ’رنگ دے بسنتی‘ (2006ء) میں پیش کیا گیا، جہاں اُن کا کردار کنال کپور نے نبھایا۔ چیتنیا ادیب نے اسٹار بھارت ٹیلی ویژن سیریز ’چندرشیکھر‘ میں اشفاق اللہ خان کا خاکہ پیش کیا ہے۔
irfanjabri.siasatdaily@gmail.com