اصلاحات (نہ کہ یونیفارم)پرسنل لا

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

دستور ہند یا ملک کے آئین میں ریاست کی پالیسی کے ہدایتی اصولوں پر ایک پورا باب ہے۔ دستور کے باب IV کے 18 آرٹیکلس میں ایک آرٹیکل ہے، مساوات اور عدم امتیاز کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو دفعہ (2) 38 میں واضح طور پر آمدنی میں پائی جانے والی عدم مساوات کو کم کرنے اس کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹنے اور بہتر سہولیات اور مواقع میں پائے جانے والی عدم مساوات کو ختم کرنے کی ہدایت اہم ہے۔ سماجی اور معاشی (اقتصادی) انصاف کے نقطہ نظر سے دفعہ 39 میں جو ہدایتی باب ہے اس باب کا یہ مرکزی ستون ہے۔ آرٹیکل 43 ریاست (مملکت) کو رہائش، اجرت حاصل کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور جہاں تک روٹی (اجرت) اور مکان (رہائشی سہولتوں) کا سوال ہے یہ محنت کش طبقات سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد کی خواہش ہے۔ حق مساوات میں اگر دیکھا جائے تو یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ قانون کی نظر میں مذہب، نسل، ذات پات، جنس یا مقام پیدائش کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت ہے۔ حق مساوات کی دفعات میں یہ کہا گیا ہے کہ مملکت کسی شخص کو بھارت کے علاقہ میں قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ ان ہدایتی اصولوں پر شاید ہی کوئی بحث ہو وہ حکومت کے ایجنڈوں میں شامل نہیں ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے سیاسی ایجنڈوں اور عدالت عظمی کے بعض مشاہدات کے باعث آرٹیکل 44 نے سیاسی جگہ حاصل کرلی۔ یعنی آرٹیکل 44 کو موضوع بحث بنادیا گیا اور یہ ایک مخصوص ایجنڈہ کے تحت کیا جارہا ہے۔
الفاظ کے معنی و مطلب : آیئے آئین کی آرٹیکل 44 کی زبان دیکھیں ’’ریاست (مملکت) بھارت کے پورے علاقہ میں شہریوں کے لئے یکساں سیول کوڈ کو محفوظ بنانے کی کوشش کرے گی‘‘۔ الفاظ کے معنی و مطلب ہوتے ہیں اس طرح نہیں جس طرح کوئی کسی کو معقول جواب دے ۔ اس نقطہ کا مطلب یہ نہیں کہ میں اس کا کیا انتخاب کروں مطلب یونیفارم کا مطلب عام نہیں ہے ’’ محفوظ کرنے کی کوشش کریں گے‘‘ محفوظ ہوں گے نہیں ہے۔ بابا صاحب امبیڈکر اور ان کے ساتھی دانشمند تھے کوئی اناڑی یا جاہل نہیں تھے۔ وہ اچھے برے کو اچھی طرح جانتے تھے انہیں پتہ تھا کہ ہمہ تہذیبی ہمہ مذہبی بھارت کے لئے کیا بہتر ہوگا اور کیا بہتر نہیں ہوگا۔ بابا صاحب امبیڈکر اور ان کے رفقاء تاریخ کا گہرا علم اور سمجھ رکھتے تھے۔ ان میں نہ صرف بھارت کی تاریخ بلکہ مذاہب، ذات پات کے فرق، سماجی اور خاندانی نظام، تہذیبی و ثقافتی طریقوں اور بھارتی عوام کے رسم و رواج سے متعلق غیر معمولی سمجھ پائی جاتی تھی اور اسی لئے ان لوگوں نے آئین کے باب IV کے الفاظ کا بڑی احتیاط سے انتخاب کیا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو یکساں سیول کوڈ یا یو سی سی مختلف مذاہب کے قوانین Personal laws کا شارٹ ہینڈ ہے۔ یہ دراصل چار شعبوں کے قوانین سے متعلق ہے جس میں شادی اور طلاق، جانشینی و وراثت سرپرستی اور گود لینے و نان و نفقہ شامل ہیں۔ صدیوں سے لوگوں کے مختلف طبقات اور مختلف جغرافیائی علاقوں کے شخصی یا مذہبی قوانین پر مختلف طریقوں سے عمل ہو رہا ہے اور اس ارتقاء میں ان لوگوں کا اہم کردار رہا ہے جنہوں نے یہاں حکمرانی کی اس طرح مذہب نے بھی اہم حصہ ادا کیا۔ جغرافیائی محل وقوع، زرخیزی، جنگی مہم جوئی، ہجرت اور بیرونی اثرات نے بھی Personal laws پر اپنے اثرات مرتب کئے یا انہیں متاثر کیا۔
1955 میں اصلاحات کا آغاز: جیسا کہ آج پرسنل لاس موجود ہیں وہیں صنفی امتیاز کے ساتھ ساتھ غیر صنفی بنیادوں پر امتیاز بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ غیر سیاسی و غیر صحتمندانہ طریقوں پر عمل بھی جاری ہے۔ ہمارے ملک میں آج بھی بعض مذموم سماجی رسم و رواج رائج ہیں جن پر بناء کسی رکاوٹ کے عمل کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں Personal laws کے ان پہلوؤں میں اصلاحات لانے کی ضرورت پیش آئی۔ جہاں تک پرسنل لاس میں اصلاحات کا سوال ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، دستور کی تدوین کے ساتھ ہی قومی ایجنڈہ میں یہ شامل رہا ہے اور ملک کی پہلی پارلیمنٹ (1952-57) نے اس پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی۔ یعنی پارلیمنٹ اس بارے میں کافی فکر مند تھی۔ اصلاحات کے علمبرداروں میں پنڈت جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر سرفہرست تھے۔ چنانچہ اپوزیشن اور ہندوؤں کے قدامت پسند طبقہ کی شدید مخالفت کے باوجود غیر معمولی سیاسی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستور میں ترمیم کی گئی اور ہندو میریج ایکٹ 1955 اور ہندو جانشینی ایکٹ 1955 متعارف اور منظور کرایا گیا۔ اس طرح ہندو میناریٹی اینڈ گارڈین شپ ایکٹ 1956 اور ہندواڈاپٹیشن اینڈ مینٹننس ایکٹ 1956 بھی منظور کرایا گیا۔ بھارت نے آزادی کے چند سال بعد اکثریتی ہندو کمیونٹی کے پرسنل لاس (مذہبی قوانین) میں اصلاحات لاتے ہوئے ایک مثالی کام کیا۔ یقینا وہ انقلابی کام تھے لیکن اس انقلاب نے بعض پہلوؤں کو برقرار رکھنے کی اجازت دی۔ امتیاز برتنے والی تمام دفعات کو حذف نہیں کیا گیا۔ مثلاً ہندو غیر منقسم خاندان Hindu undivided family Act کو تسلیم کیا گیا اور توقعات کے عین مطابق شادی بیاہ کے رسم و رواج کو خاص طور پر تسلیم کیا گیا۔ یہ اس لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ بھارت میں رسم و رواج کے مطابق ہی اکثر شادیاں انجام پاتی ہیں۔ واضح رہے کہ 1961، 1962، 1964، 1976 ، 1978 ، 1999، 2001 اور 2003 کے دوران دستور کی مختلف دفعات میں بے شمار ترمیمات کی گئیں۔ سال 2005 اور 2008 کے درمیان یوپی اے حکومت نے اصلاحات کا ایک اور سیٹ پیش کیا اور اس کے مطابق ترامیم کئے سطور بالا میں جن چار دفعات کا حوالہ دیا گیا ان میں سے 3 میں ترمیم کی گئی جو انقلابی تبدیلیاں یا ترامیم کی گئیں۔ ان میں بیٹیوں اور بیٹوں میں جائیداد کی مساویانہ تقسیم، گھریلو تشدد سے خواتین کے تحفظ کے لئے قانون انسداد گھریلو تشدد 2005، قانون انسداد بچپن کی شادی 2006 اور والدین و بزرگ شہریوں کی بہبود اور ان کی دیکھ بھال سے متعلق قانون 2007 جیسے انقلابی قوانین منظور کئے گئے۔ جہاں جہاں مقننہ کے اداروں نے ہچکچاہٹ محسوس کی وہاں عدالتیں حرکت میں آئیں۔ 22 اگست 2017 کو سپریم کورٹ نے مسلمانوں میں طلاق ثلاثہ کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے ختم کردیا۔ جہاں تک قبائیلیوں کا سوال ہے ہم نے دستور اور اس کی دفعات میں ترامین کے دوران قبائیلی عوام کے Personal laws کو نہیں چھیڑا ۔ سطور بالا میں ہم نے جن چار قوانین کا ذکر کیا ہے ان کا آرٹیکل 366 کا اطلاق نہیں ہوتا ہاں دستور کے چھٹویں شیڈول کی مشق 25 کو آسام، میگھالیہ، تریپورہ اور میزورام کے قبائیلی علاقوں میں اڈمنسٹریشن کے لئے شامل کیا گیا اور اس میں ایک ایسا پیرا گراف بھی شامل کیا گیا جو ان ریاستوں میں ترکہ (وراثت) شادی، طلاق اور سماجی اصلاحات سے متعلق ضلعی کونسل اور علاقائی کونسلوں کو اختیارات دیئے گئے ہیں جبکہ ناگالینڈ کے لئے آرٹیکل (371A) سکم کے لئے (371F) اور میزورام کے لئے (آرٹیکل 371G) کے تحت مذہبی سماجی رسم و رواج طور طریقوں کے تحفظ کے لئے خصوصی دفعات شامل کی گئیں۔ چنانچہ چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ کے قبائیلیوں نے اپنے لئے بھی ایسی ہی خصوصی دفعات کا مطالبہ کیا ہے۔