اصلاحات کس لئے

   

پی چدمبرم
پروفیسر اروند پناگاریا جس انداز میں اصلاحات اور ترقی یا نمو پر بحث میں شامل ہوئے اس کا میں خیرمقدم کرتا ہوں۔ معاشی اصلاحات اور شرح نمو سے متعلق انڈین ایکسپریس کی 18 اکتوبر 2020 کی اشاعت میں میرا ایک کالم شائع ہوا تھا جس کا پروفیسر اروند نے ایک مضمون کی شکل میں جواب دیا۔ جس میں پروفیسر صاحب نے مودی کے معاشی اصلاحات سے متعلق ریکارڈ کی مدافعت کی۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے اس بحث کو علمی اور مہذب سطح پر رکھا۔

میں نے اپنے کالم میں اُن پانچ اصلاحات کا تفصیلی جائزہ لیا جس کے بارے میں مسٹر مودی کے حامی بہت زیادہ بولتے ہیں۔ میں نے اپنے مضمون کے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کسی بھی اصلاحات کی متبادل آزمائش جی ڈی پی کی شرح نمو میں اضافہ اور تیزی ہوتی ہے۔ میں پروفیسر اروند کو اصلاحات کے سنہری معیار کی یاددہانی کروا رہا تھا لیکن انہوں نے اپنے جوابی مضمون میں یہ کہا کہ میں نے اپنا گول پوسٹ تبدیل کردیا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اب مجھے ڈاکٹر اروند پناگاریا کے دلائل کا جواب دینے دیجئے۔ انہوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ سب سے زیادہ اصلاحات کس نے نافذ کروائے اور ان پر عمل آوری کی۔ اس سلسلہ میں خاص طور پر لفظ ’’سب سے زیادہ‘‘ پر توجہ دیجئے۔ ڈاکٹر پناگاریا کے مطابق پی وی نرسمہا راؤ اور اٹل بہاری واجپائی اصلاحات کے چیمپین تھے اور مسٹر نریندر مودی ان دونوں شخصیتوں کی صف سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ ان کی صف میں شامل نہیں۔ بہرحال یہ پروفیسر اروند پناگاریا کا خیال ہے جبکہ دنیا کے بیشتر ماہرین اقتصادیات بشمول پروفیسر اروند پناگاریا کے اتالیق و استاد پروفیسر جگدیش بھگوتی پروفیسر صاحب کے اس دلیل پر حیرت میں پڑ جائیں گے۔ جب سے ڈاکٹر پناگاریا نے لفظ ’’سب سے زیادہ‘‘ استعمال کیا ہے اس کا مطلب مقداری اقتدامات ہیں۔ اب ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ کس وزیر اعظم کی قیادت میں کتنی معاشی اصلاحات نافذ کی گئیں۔ میں نے پہلے ہی یہ بات نوٹ کی ہے کہ ڈاکٹر پناگاریا نے کم از کم پانچ اصلاحاتی اقدامات کو مسٹر نریندر مودی سے جو حسب ذیل ہیں:
پہلا ضابطہ دیوالیہ، دوسرا زرعی قوانین، تیسرا لیبر اصلاحات، چوتھا طبی تعلیم کے شعبہ میں اصلاحات، پانچواں بیرونی راست سرمایہ کاری کو فرخدلانہ بنانا۔

بعض وجوہات کے نتیجہ میں ڈاکٹر پناگاریا نے جی ایس ٹی کی تباہ کاریوں اور تباہ کن نوٹ بندی پر روشنی ڈالنے سے گریز کیا ہے۔ ایسے میں ان اصلاحات کو مکمل کرنے کے لئے ہمیں مذکورہ پانچ اصلاحات میں یہ دو اصلاحات بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ اس طرح مودی کی جانب سے متعارف کردہ اصلاحات کی تعداد 7 ہو جائے گی۔ میں پھر ایک بار اس بحث میں نہیں پڑنا چاہوں گا کہ آیا طبی تعلیم کے شعبہ میں اصلاحات نافذ کرنا اور اس کے لئے قومی طبی کمیشن کا قیام اصلاحات میں سے ایک ہے یا بیرونی راست سرمایہ کاری کو فراخدلانہ بنانا صرف مسٹر مودی کا کارنامہ قرار دیا جاسکتا ہے، جیسے انہوں نے ہی بیرونی راست سرمایہ کاری کی پہلی مرتبہ اجازت دی ہو۔ یاد رکھیئے ہم ان اصلاحات کا مقداری جائزہ لے رہے ہیں معیاری جائزہ نہیں۔ اس معاملہ میں دیکھیں تو ان کا اسکور 7 بنتا ہے۔ اب مجھے ڈاکٹر منموہن سنگھ کے بحیثیت وزیر اعظم (2004 تا 2014) نافذ کردہ اصلاحات کے بارے میں بتانے دیجئے۔ اس سے پہلے کے آپ ان اصلاحات کی فہرست کا مطالعہ کریں یہاں پر کئی امتناعات بھی ہیں۔ میں نے اپنے اس مضمون میں کئی ایسے اصلاحی اقدامات کو چھوڑ دیا ہے جن پر عمل ہوتا رہا۔ مثال کے طور پر بینکنگ کیش ٹرانزیکشن ٹیکس
(BCTT)
جس کا اثر بینکوں سے رقومات نکالے جانے اور نقد رقم جمع کروانے پر پڑا ہے۔ میں نے نیشنل مینیوفیکچرنگ کامپیٹیٹیونس کونسل (قومی مینیوفیکچرنگ مسابقتی کونسل) اور سرمایہ کاری کمیشن جیسے اقدامات کو بھی چھوڑ دیا ہے۔ یہ ایسی اصلاحات تھیں جو ایک شخص کے اطراف ہی مرکوز تھیں۔ یو پی اے حکومت نے بعض اصلاحاتی اقدامات شروع کئے تھے لیکن آج ان اصلاحات کو مختلف نام دے دیئیگئے ہیں۔ میں نے اصلاحاتی اقدامات کی پائیداری اور طوالت کے تجربات کو بھی اپنایا ہے۔ ڈاکٹر پناگاریا نے شرح نمو کے جو نمبرات دیئے ہیں میں یہ قبول کروں گا۔ نرسمہا راؤ کے لئے 5.1 فیصد، اے بی واجپائی 5.9 فیصد، ڈاکٹر منموہن سنگھ 7.7 فیصد اور مسٹر نریندر مودی 6.8 فیصد۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے دو مرتبہ بحیثیت وزیر اعظم ایسا ریکارڈ قائم کیا جو کسی دوسرے وزیر اعظم کے حصے میں نہیں آیا یہ بات منصفانہ ہوگی کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے نرسمہا راؤ کے دور وزارت عظمیٰ کے دوران جو بھی اصلاحات نافذ کروائے تھے انہیں بھی ڈاکٹر سنگھ کے حصہ میں جانا چاہئے جنہوں نے بحیثیت وزیر فینانس غیر معمولی اقدامات کئے تھے اور انہیں ہی معاشی اصلاحات کا کریڈٹ جانا چاہئے۔ میں آپ کے سامنے 2004 تا 2014 یوپی اے حکومت کے دوران نافذ کردہ اصلاحات میں سے کچھ اصلاحات کی فہرست پیش کرتا ہوں۔

پہلی اضافی قدر ٹیکس، دوسری مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار طمانیت قانون، تیسری آدھار، چوتھی رقم کی راست منتقلی کے ذریعہ فائدہ
(DBT)،
پانچویں زیرو بیالنس بینک اکاؤنٹ، چھٹویں علاقائی دیہی بینکوں کا استحکام، ساتویں قانون حق تعلیم، آٹھویں قومی دیہی صحت مشن: ASHA، نویں قومی شہری تجدیدی مشن، دسویں قومی باغبانی مشن، گیارویں موسم پر مبنی فصل بیمہ، بارویں اے پی ایم سی سے متعلق ماڈل قانون، تیرویں قومی فروغِ مہارت مشن و کارپوریشن، چودہویں تمام اشیاء و خدمات پر CENVAT، پندرہویں موقوف سیکوریٹیز پر طویل مدتی رقمی فوائد، سولہویں ایس ٹی ٹی کا متعارف کیا جانا، سترہویں ریٹیل شعبہ میں بیرونی راست سرمایہ کاری، اٹھارویں کوئلے کی کانکنی میں خانگی شراکت، انیسویں پٹرول اور ڈیزل پر سبسیڈیز کا خاتمہ کرنا، بیسویں صنفی بجٹ، ایکیسویں اسٹاک ایکسچینج کو عوامی کمپنی میں تبدیل کرنا۔ بائیسویں پی ایف آر ڈی اے ایکٹ، تیئیسویں کمپنیز ایکٹ، چوبیسویں نیشنل فوڈ سیکوریٹی ایکٹ، پچیسویں قانون حق منصفانہ معاوضہ
(LARR)
ایکٹ، چھبیسویں جنگلات کے حقوق سے متعلق قانون۔

میں اور یو پی اے نے جو اصلاحات متعارف کروائے انہوں نے ترقی کی راہیں ہموار کیں اور جو کچھ ترقی ہوئی عوام کے لئے اور آنے والی نسلوں کے لئے ہے اور عوام ہی بہتر انصاف کرنے والے ہیں۔