مخالف آوازوں سے مودی حکومت کی جنگ
یونیورسٹی طلبہ پر حملے … این پی آر کے کام کا آغاز
رشیدالدین
عدم رواداری اور مخالفت کو برداشت نہ کرنے کا جذبہ اگر حکومت میں پیدا ہوجائے تو سمجھ لیجئے کہ ملک ڈکٹیٹرشپ اور ایمرجنسی کے حالات کی سمت پیشقدمی کر رہا ہے۔ اختلاف رائے جمہوریت کا لازمی جز ہے۔ اختلاف رائے کی جہاں گنجائش نہیں وہ کمزور جمہوریت کی علامت ہے جبکہ مخالف رائے کا احترام جمہوریت کی خوبی ہے۔ دستور ہند کے معماروں نے صحتمند جمہوریت اور مستحکم و خوشحال ہندوستان کیلئے عوام کو اختلاف رائے کا ہی نہیں بلکہ احتجاج کا حق دیا ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کی شناخت اس کی وسیع القلبی اور وسیع المشرب جمہوریت ہے۔ یہ خوبی دیگر ممالک کے مقابلہ اسے خصوصی امتیاز عطا کرتی ہے۔ گزشتہ 6 برسوں میں ملک کی روایات کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی ۔ نریندر مودی برسر اقتدار آتے ہی عدم رواداری کے حلقہ نشینوں کو نہ صرف کھلی چھوٹ مل گئی بلکہ اکثریتی طبقہ کے بھولے بھالے عوام کے ذہنوں کو فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ کرتے ہوئے عدم رواداری کو فروغ دیا جانے لگا۔ سیکولر ہندوستان کی مضبوط جڑوں کو کھوکھلا کرنے کیلئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا گیا ۔ ہر دور میں عدم رواداری کے پرستار رہے لیکن حکومتوں کی سرپرستی کبھی حاصل نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ جب حکومت خود تخریب پسندوں کی حوصلہ افزائی کرنے لگے تو پھر ہر کسی کو سماج کے تانے بانے بکھرنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ اسے ہندوستان کی خوش قسمتی کہیئے کہ آج بھی عوام کی اکثریت نے سماج کو توڑنے سے زیادہ جوڑنے کے جذبہ سے خود کو وابستہ رکھا ہے۔ گزشتہ 6 برسوں میں نریندر مودی سرکار نے ہر مخالف آواز کو دبانے کی کوشش کی ۔ خود کو ملک کا چوکیدار اور عوام کا پردھان سیوک کا دعویٰ کرنے والے ملک کی رواداری اور بھائی چارہ کی روایات کی حفاظت اور عوام کی بہتر خدمت کے فریضہ پر توجہ دینے کے بجائے سماج اور ملک کے دشمن ثابت ہوئے۔ نفرت کی بنیادوں اور تعصب کی دیواروں پر عدم رواداری کی عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس کا نام ہندو راشٹر ہوگا۔ دوسری میعاد کی کامیابی کے بعد ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کی رفتار تیز کردی گئی اور حالیہ عرصہ میں جو فیصلے متواتر کئے گئے ، وہ حکومت کے عزائم کا پتہ دیتے ہیں۔ ایجنڈہ کی راہ میں حائل کسی بھی رکاوٹ کو طاقت کے ذریعہ ختم کرنے کے خطرناک رجحان نے سیکولر ، امن پسند اور انصاف پسندوں کو مودی حکومت سے ’’آزادی‘‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کردیا۔ انتقام کے اس جذبہ نے خوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیا ہے۔
مخالفت میں اٹھنے والی کوئی بھی آواز سننا تک گوارا نہیں۔ شخصیتیں چاہے سیاسی ہو کہ سماجی ، طلبہ ہوں کہ اساتذہ ، مرد ہو کہ عورت ، شعراء ہوں کہ ادیب ، دانشور ہوں کہ فنکار ، صحافی ہوں کہ تجزیہ نگار الغرض سماج کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جس کو حق گوئی اور اختلاف رائے پر نشانہ نہیں بنایا گیا۔ مودی حکومت کا رویہ سیاسی مبصرین کے مطابق ڈکٹیٹرشپ ، مارشل لا اور ایمرجنسی جیسی صورتحال کی طرف پیشقدمی ہے۔ ہجومی تشدد میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر آواز بلند کرنے والے سیول سوسائٹی ارکان اور جہت کاروں پر جان لیوا حملے کئے گئے۔ کئی جہد کاروں کی موت واقع ہوگئی۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کو توڑنے اور خصوصی موقف کی برخواستگی کے خلاف احتجاج پر کشمیری قائدین کو نظربند کردیا گیا جو گزشتہ پانچ ماہ سے گھروں یا جیلوں میں بند ہیں۔ وادی کے عوام بظاہر آزاد ہیں لیکن پانچ ماہ کے دوران پابندی کے ذریعہ انہیں فاقہ کشی پر مجبور کردیا گیا تھا اور دو وقت کی روٹی کیلئے وہ زندگی کی تگ ودو میں مصروف ہوگئے۔ ان کی خاموشی محض مجبوری کے سوا کچھ نہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ احتجاج کی چنگاری بجھ گئی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں کے سینے انقلاب سے مچل رہے ہیں۔ ان کی خاموشی کو اقرار یا رضامندی سمجھنا نادانی ہوگی۔ جس طرح آوازوں کے سناٹے ہوتے ہیں ، اسی طرح سناٹوں کی بھی گونج ہوتی ہیں۔ کشمیر کے سناٹوں سے اٹھنے والی انقلاب کی گونج کو صرف جہاندیدہ افراد سن سکتے ہیں۔ سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کا یہ تبصرہ حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ’’ہم عملی طورپر کشمیر کو کھوچکے ہیں‘‘۔ حالات کو نارمل ثابت کرنے کیلئے مختلف ممالک کے سفارتکاروں کو وادی کا دورہ کرایا گیا۔ سفارت کاروں کو فوج اور نیم فوجی دستوں کے عہدیداروں کی بریفنگ تک محدود رکھنے کے بجائے عوام سے ملاقات کا موقع فراہم کیا جاتا تو حقیقی صورتحال کا پتہ چلتا۔ مخصوص افراد اور صحافیوں کی سفارت کاروں سے ملاقات کرائی گئی ۔ تاجروں نے ملاقات سے انکار کردیا۔ کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں کو محروس رکھ کر حکومت آخر کونسے حالات میں بہتری دکھانا چاہتی ہے۔
عدم رواداری کے جذبہ نے مخالف شہریت قانون اٹھنے والی آوازوں کو کچلنے کی سازش رچی ہے جس کے تحت یونیورسٹیز کے طلبہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ جامعہ ملیہ اور علیگڑھ یونیورسٹیز میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس مظالم کی داستانیں ابھی تازہ تھیں کہ سنگھ پریوار کے غنڈوں نے جے این یو کیمپس پر حملہ کردیا۔ باقاعدہ پولیس کی نگرانی میں اے بی وی پی اور آر ایس ایس کے اشرار نے چن چن کر طلبہ اور اساتذہ کو نشانہ بنایا۔ حملہ کا واحد مقصد مخالف شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو کچلنا تھا۔ خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرتے ہوئے طلبہ کو حکومت کے خلاف احتجاج سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندوستان میں اگر انصاف اور حق کیلئے کہیں سے آوازیں اٹھ رہی ہیں تو وہ ملک کی یونیورسٹیز ہیں۔ بلا لحاظ مذہب و ملت طلبہ نے سیاسی سرپرستی کے بغیر حکومت کے ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ مودی حکومت جانتی ہے کہ اگر طلبہ کو روکا نہیں گیا تو یہ انقلاب کی شکل اختیار کرلے گا ۔ سیاسی سطح پر حکومت کے خلاف محض رسمی اور ضابطہ کی تکمیل کی طرح احتجاج کیا جارہا ہے۔ علیگڑھ اور جامعہ ملیہ کے بعد جے این یو سے حکومت خوفزدہ ہے۔ طلبہ پر ایک طرف پولیس اور سنگھی غنڈوں کے مظالم جاری ہیں تو دوسری طرف فلمی ستاروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ضمیر کی آواز پر کئی فلمی شخصیتوں نے طلبہ کے احتجاج کی تائیدکی اور بعض نے احتجاجی طلبہ سے ملاقات کرتے ہوئے متنازعہ قوانین پر ناراضگی جتائی ۔ ایسی فلمی شخصیتوں کے بائیکاٹ کی بی جے پی نے اپیل کی۔ بعض اداکاروں کو ٹی وی پروگراموں سے اچانک الگ کردیا گیا ۔ فلمی کے بائیکاٹ کی اپیل اور ٹی وی پروگراموں سے علحدگی سرکاری سطح پر عدم رواداری کا کھلا ثبوت ہے۔ احتجاجیوں کے خلاف بی جے پی قائدین کی اشتعال انگیزی نئی بات نہیں لیکن تلنگانہ میں کریم نگر کے بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے اشتعال انگیزی کی تمام حدود کو پار کرلیا۔ انہوں نے شہریت قانون کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستان بھیج دینے کی دھمکی دی ، اتنا ہی نہیں مخالفین کو بم سے اڑادینے کی بات کہی۔ شریعت کے خلاف بھی زبان درازی کی گئی۔ بی جے پی رکن پارلیمنٹ کو جان لینا چاہئے کہ یہ ملک تمام ہندوستانیوں کا ہے اور کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو آریائی ہندو ہندوستان کے باہر سے آئے ہوئے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ کی نسلیں بھی غیر ملکی ہوں۔ خود ملک میں پناہ گزیں کے طور پر آنے والے مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ۔ سیکولر طاقتوں اور خاص طور پر مسلم قائدین کو رکن پارلیمنٹ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہئے تاکہ زبان بندی ہو۔ دوسری طرف ملک میں قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) پر عمل آوری کا خاموشی سے آغاز ہوچکا ہے۔ اڈیشہ سمیت کئی ریاستوں میں پولیس اور سرکاری ملازمین کے بھیس میں عوام سے تفصیلات حاصل کی جارہی ہیں۔ احتجاج کی پرواہ کئے بغیر حکومت اپنے مقصد کی تکمیل کی سمت پیشقدمی کر رہی ہے۔ کئی ریاستیں مرکز کے دباؤ میں اور ووٹ بینک کی سیاست کرتے ہوئے اس مسئلہ پر خاموش ہیں۔ ایسے بظاہر سیکولر لیکن مفاد پرست چیف منسٹرس کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔ این پی آر کا ملک بھر میں بائیکاٹ کیاجائے کیونکہ یہ این آر سی کی سمت پہلا قدم ہے۔ وسیم بریلوی نے کچھ یوں مشورہ دیا ہے ؎
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے