اظہارخیال کی آزادی اور ذمہ داریاں

   

امجد خان
آزادی اظہارخیال کو اکثر جمہوریت کی جان کہا جاتا ہے اور اگر کسی ملک میں جمہوریت تو ہو لیکن وہاں عوام کی آزادی اظہارخیال پر پابندی ہو تو یہ سمجھ لیجئے وہ مردہ جمہوریت ہے۔ اظہارخیال کی آزادی عوام کا ایک ایسا بنیادی حق ہے جو ہماری عوامی زندگی کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے لیکن ہمارے ملک میں نفرت انگیز تقاریر، اشتعال انگیز بیانات اور قومی سلامتی کے خلاف خطرات کسی بھی جمہوریت اور اظہارخیال کی آزادی سے متعلق بنیادی حق سے میل نہیں کھاتے اور نفرت انگیز تقاریر اشتعال انگیز خطابات و بیانات سے لیکر قومی سلامتی و قومی صیانت کے خلاف خطرات تک ہر معاشرہ آزادی اور ذمہ داری کے مابین ایک خط کھینچنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ بحث صرف علمی سطح تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہر دن ہماری زندگی کے حدود کا تعین کرتی ہے۔ اظہارخیال کی آزادی کسی بھی فرد کا بنیادی حق ہے جیسا کہ ہم نے سطوربالا میں بھی ذکر کیا ہے اور ہر ہندوستانی شہری کو یہ بنیادی حق دستور کی دفعہ 19 کے تحت دیا گیا ہے یہ ایسی دستوری دفعہ ہے جو ہمیں اپنی رائے اپنے خیالات کو بنا کسی خوف و خطر کے پیش کرتے یا ان کے اظہار کی اجازت دیتا ہے۔ باالفاظ دیگر بناء کسی مداخلت، انتقامی کارروائی، سنسرشپ، قانونی جوابدہی کے خوف کے بغیر سب کو اظہارخیال کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ اظہارخیال کی آزادی کا دستور میں جو بنیادی حق دیا گیا ہے وہ حق صرف تقریر یا خطاب تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ مختلف شکلوں میں بھی ہے جیسے اشاعت، اشارے، علامات اور احتجاجی مظاہرے وغیرہ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ حقوق انسانی کے عالمی ڈکلریشن اور حقوق انسانی سے متعلق عالمی قانون میں اظہارخیال کی آزادی کو انسانی حق شمار کیا گیا اس کے علاوہ اظہارخیال کی آزادی جمہوری معاشرہ کی ضروری اور لازمی بنیاد ہے لیکن یہ ایک ایسا بنیادی حق ہے جس کا حکومتوں حکمرانوں اور حکام نے بڑی آسانی سے استحصال کیا اور اس بنیادی حق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا اور یہ سب کچھ دستور کے اندر ہی پابندیوں و امتناع کے حدود کو وسعت دے کر کیا گیا۔ دستورہند کی دفعہ 19(2) ریاست کی سلامتی، امن عامہ، تحقیر عدالت، تحقیر اور کسی جرم کے ارتکاب کیلئے اکسانا وغیرہ جیسی بنیادوں پر واجبی پابندیاں عائد کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ جہاں تک عدلیہ کا سوال ہے عدلیہ نے آزادی اور پابندیوں میں توازن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ رومیش تھاپر بمقابلہ ریاست مدراس (1950) میں عدالت عظمی (سپریم کورٹ) نے آزاد صحافت کو جمہوریت کا مرکزی ستون تسلیم کیا۔ اس طرح کیدارناتھ سنگھ بنام ریاست بہار (1962) میں عدالت نے بغاوت کے قانون کی دستوری حیثیت برقرار رکھی لیکن اس کی حد صرف تشدد پر اکسانے تک محدود کردی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران شیریا سنگھ بمقابلہ یونین آف انڈیا (2015) میں عدالت نے آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66A کو کالعدم قرارد یا کیونکہ یہ آن لائن اظہار کو محدود کرتا تھا۔ یہ فیصلے عدلیہ کی ان کوششوں کو نمایاں کرتے ہیں جن سے آزادی اظہارخیال کو سیاسی دباؤ کے باوجود مضبوط اور محفوظ رکھا جاسکے۔ موجودہ دور میں آزادی اظہارخیال کو درپیش چیلنج زیادہ پیچیدہ ہیں۔ سوشل میڈیا کے عروج سے جہاں اظہارخیال کی آزادی کے مواقع بڑے ہیں وہیں غلط معلومات، جھوٹی خبروں، آن لائن بدتمیزی اور نفرت انگیز و اشتعال انگیز تقاریر و بیانات بحث و مباحث کو مزید پیچیدہ بنارہے ہیں۔ ریاست کیلئے یہ ایک بڑی آزمائش ہے۔ ایک طرف اسے شہریوں کا تحفظ کرنا ہے تو دوسری طرف سنسر شپ سے بچنا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ ہمارے ملک میں صحافی تفریح و طبع سے لوگوں کو محظوظ کرنے والوں جیسے کامیڈینس اور طلبہ کو صرف اور صرف اس لئے نشانہ بنایا گیا اور بنایا جارہا ہے کیونکہ انہوں نے پوری بیباکی سے اظہارخیال کیا اور حیرت کی بات یہ ہیکہ معاشرہ خود تقریر کا ایک ریگولیٹر بن گیا ہے۔ جہاں تک کینسل کلچر کا سوال ہے یہ دراصل اجتماعی ناپسندیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں لوگ اپنی خود کی آوازوں کا استعمال کرتے ہوئے ایسے خیالات کو چیلنج کرتے ہیں جو متنازع ہوتے ہیں اور مسائل پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ایک جانب یہ برادریوں کو بااثر لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے قابل بناتا ہے دوسری طرف یہ خوف و ہراس کا ماحول بھی پیدا کرسکتا ہے۔ ایسا ماحول جو کامیڈینس، مزاح نگاروں، طلبہ اور صحافیوں کو کھل کر اظہارخیال کرنے سے روکتا ہے۔ ویسے بھی اظہارخیال کی آزادی نہ کوئی ہتھیار ہے اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچانے کا لائسنس ہے اور اس کی مزید تشریح کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ نہ ہی یہ کوئی مراعات ہے جو بااثر اور بااقتدار لوگ عطا کریں۔ آزادی اظہارخیال جمہوریت کی اصل روح ہے لیکن یہ آزادی اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب اس کا استعمال پوری ذمہ داری اور تندہی کے ساتھ کیا جائے۔ ہمارا ملک ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور بحیثیت جمہوری ملک یہ آزادی اور صبروتحمل کے درمیان اس نازک توازن کو برقرار رکھنے پر منحصر ہے۔