ملک کو مصالحت کی ضرورت ہےتصادم کی نہیں

   

اعجاز احمد اسلم

ہندوستان‘ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے باالفاظ دیگر نظام شمسی کے واحد قابلِ رہائش سیارہ پر انسانی آبادی کا سب سے بڑا حصہ فی الوقت ایک

سنگین بحران سے دوچار ہے۔ ہمارے ملک میں لوگ ایک دوسرے سے بے رُخی اختیار کئے ہوئے ہیں ‘دوستی کی بجائے عداوت فروغ پارہی ہے، لڑائی جھگڑے عام ہوگئے ہیں‘ مذہبی خطوط پر لوگوں کو تقسیم کیا جارہا ہے۔ مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے ، نفرت کا پرچار کیا جارہا ہے، امن پر بدامنی، سکون پر بے چینی کو ترجیح دی جارہی ہے۔ سیاسی جماعتیں بدترین مقاصد اور ملک و قوم کے تئیں سنجیدگی ملک اور اس کے عام شہریوں سے محبت کے فقدان کی بدترین تصویر پیش کرتی ہیں۔ اصل میں مفاد پرست و مفادات حاصلہ ہماری سیاسی جماعتوں پر چھائے ہوئے ہیں، یہ عناصر سیاسی جماعتوں کی سربراہی کرتے ہیں۔ اگر ہم اقتدار کی راہداریوں کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مفادات حاصلہ ہر حال میں اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں‘ ملک میں سرِدست ایسا ہی رجحان پایا جاتا ہے۔ ان عناصر کو ملک و قوم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، ملک اور اس کے عوام ترقی کریں یا نہ کریں‘ ان پر ظلم و جبر کے پہاڑ ٹوٹیں‘ مہنگائی اور بیروزگاری عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے انہیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں جو قوانین بنائے جارہے ہیںاس میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے، ان قوانین سے عام ہندوستانیوں کی بھلائی ہونے کی بجائے اُلٹے عام ہندوستانیوں کو نقصانات و پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ یہ قوانین تنگ نظری کی بنیاد پر بنائے جارہے ہیں۔ اس طرح کے قوانین فرقہ پرستی پر مبنی ہیں جبکہ ہمارے وطنِ عزیز میں بیروزگاری وباء کی طرح پھیل چکی ہے۔ لمحہ لمحہ مہنگائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اقتصادی ترقی اور صنعتی نمو سُست روی کا شکار ہے، بیرونی قرض کے بوجھ میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور ان قرضوں پر سود کی ادائیگی نے قومی معیشت کے ساتھ ساتھ ہندوستانی شہریوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ امریکی حکومت کی غیردانشمندانہ بلکہ بیوقوفی پر مبنی پالیسیوں نے جلتے پر تیل کا کام کیا ہے۔ امریکی حکومت ( ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کی عجیب و غریب پالیسیوں ) کی پالیسیوں نے ہماری برآمدات کو خطرہ میں ڈال دیا ہے اور درآمدات پر ہمارے مصارف میں اضافہ کردیا ہے۔
حکومت ہند نے 5 کھرب ڈالرس مالیتی معیشت کا جو میٹھا خواب دیکھا اور قوم کو دکھایا تھا وہ کہیں نظر نہیں آتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ خواب بھی حکومت کے میٹھے جملوں میں سے ایک جملہ ہے۔ حکومت بھولے بھالے بے شمار لوگوں سے جھوٹے وعدے کرتے ہوئے انہیں بیوقوف بنارہی ہے، وہ صرف اور صرف جھوٹے وعدے اور میٹھے جملوں کا استعمال کررہی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 145 کروڑ کی آبادی میں سے 100 کروڑ کی آبادی کے پاس اپنی بقاء کو یقینی بنانے بمشکل کوئی ذریعہ ہوگا، ان کے پاس کوئی اضافی رقم ؍ بچت نہیں‘ جیسے ہی کچھ رقم حاصل ہوتی ہے وہ اسے خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں امیر اور غریب کے درمیان معاشی تفاوت بڑھتا جارہا ہے، خلیج بڑھتی جارہی ہے، دولت اور ملک کے قدرتی وسائل چند لوگوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں‘ یہ لوگ ہی ملک کی دولت اور قدرتی وسائل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اقتدار بھی ان ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ جمہوریت صرف انتخابات میں ہی محدود ہوکر رہ گئی، ایک طرح سے جمہوریت تنزلی کا شکار ہوگئی اور موافق حکومت الیکشن کمیشن کے ہاتھوں اس کی حالت مزید خراب ہوگئی ( ویسے بھی الیکشن کمیشن آف انڈیا پر اپوزیشن نے متعدد سنگین الزامات عائد کئے جن میں ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ مرکزی حکومت کے اشارہ پر کام کررہا ہے، اس نے اپوزیشن کے تئیں تعصب و جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اپوزیشن کے ان الزامات میں کسی حد تک سچائی پائی جاتی ہے)۔ ہمارے ملک میں فی الوقت ہر روز نئے نئے مسائل سر اُٹھارہے ہیں اور یہ ایسے مسائل؍ تنازعات ہیں جنہوں نے ہندوستانی قوم کے اتحاد و سالمیت کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔
دوسری طرف شمال ۔ جنوب میں دوریاں بڑھتی جارہی ہیں‘ سارے ملک میں پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی کا عمل ایک طویل عرصہ سے تاخیر کا شکار ہے اور اب تو وہ بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ 5 جنوبی ریاستوں نے خاندانی منصوبہ بندی اسکیمات پر کامیابی سے عمل آوری کی جس کے نتیجہ میں پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی کے بعد پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی گھٹ جائے گی‘ حکومت ہند میں ان کا حصہ کم ہوجائے گا۔ ساتھ ہی ہندوستان کی وفاق کی حکمرانی بھی متاثر ہوگی۔ ان حالات میں جنوبی ہند کی ریاستوں نے اگلے 25 برسوں تک ان کی موجودہ پارلیمانی نشستوں (حلقوں ) کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا۔ مرکز اور جنوبی ہند کی ریاستوں کے درمیان ایک اور تنازع بھی پیدا ہوگیا ہے۔ جنوبی ہند کی ریاستیں ہندی کے نفاذ ( ہندی کو غیر ہندی ریاستوں پر زبردستی تھونپنے ) کی شدت سے مخالفت کررہی ہیں‘ ان ریاستوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت ہندی کو زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ کُل ہند سطح پر بین ریاستی مراسلت کیلئے انگریزی ایک اضافی زبان کے طور پر جاری رہے۔ ویسے بھی عالمی سطح پر انگریزی ایک رابطے کی زبان ہے۔ جنوبی ہند کی ریاستیں اس بات پر بھی معترض ہیں کہ قومی آمدنی یا ریوینیو میں ان کا جو حصہ انہیں دیا جانا چاہیئے وہ نہیں دیا جارہا ہے اس کے برعکس شمالی ہند کی ریاستوں کا قومی آمدنی میں بہت زیادہ حصہ ہے حالانکہ وہ محاصل بہت کم دیتی ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ یہ مسئلہ بھی دوستانہ اور خوشگوار ماحول میں حل کیا جائے۔ دوسری طرف حکمراں جماعت کو جملہ بازی سے گریز کرتے ہوئے صحت عامہ ، تعلیم اور ترقی کے شعبوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیئے ، اسے وفاقیت کا احترام کرنا چاہیئے اور تمام ریاستوں کو مساویانہ اہمیت دی جانا چاہیئے۔ یہ وقت تاریخ کی غلطیوں کو چاہے وہ حقیقی ہوں یا فرضی سدھارنے کا نہیں بلکہ ملک کو زندگی کے ہر شعبہ میں آگے بڑھانے کا ہے۔
بدبختی کی بات یہ ہے کہ کٹر فرقہ پرست اور فاشسٹ عناصر ہندو۔ مسلم اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اُکسارہے ہیں۔ مغل حکمراں اورنگ زیب کو اقتدار کی سطحوں پر کنٹرو ل کی ایک حکمت عملی کے طور پر ایک آلہ کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ اورنگ زیبؒ کے خلاف نفرت پیدا کرکے ان کے نام پر یہ عناصر اپنے اقتدار کو استحکام بخش رہے ہیں۔ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ اورنگ زیب اور شیواجی کے درمیان تنازعات قرونِ وسطیٰ کے ہندوستان میں معمول کے تنازعات تھے۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شیواجی کے پوتے شاہ جی اورنگ زیب کی زیر سرپرستی تھے، اورنگ زیبؒ کے انتقال کے بعد انہیں رہا کیا گیا اور اپنی ریاست واپس ہونے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے بطورِ احترام خلدآباد میں اورنگ زیبؒ کی مزار پر حاضری دی۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ اورنگ زیب کی دختر شاہ جی کی سرپرست تھیں چنانچہ اس شہزاری کے اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر شاہ جی نے ان کے احترام میں ایک مسجد تعمیر کروائی۔ اگر دیکھا جائے تو جدید، سیکولر اور بلالحاظ مذہب و ملت‘ رنگ و نسل‘ ذات پات تمام کو اپنے دامن میں سمو لینے والے ہندوستان میں فرقہ وارانہ اور فاشسٹ تنازعات کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ گڑھے مُردوں کو کھود نکالنے کی بکواس باتیں حالات و معاملات کو مزید پیچیدہ بنائیں گے۔ اس طرح کی حرکتیں ملک اور قوم کی بدبختی کے سواء کچھ نہیں۔ یہ قومی تانے بانے کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنیں گی۔ سمجھ دار شہریوں کو آگے آکر مفاہمت‘ مصالحت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مستحکم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔