اعداد و شمار جھوٹ نہیں بولتے

   

پی چدمبرم

وزیر فینانس محترمہ نرملا سیتا رامن نے 12 فروری کو راجیہ سبھا اور 13 فروری 2021 کو لوک سبھا میں بجٹ پر پرزور انداز میں متنازعہ تقاریر کیں۔ ان تقاریر سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بجٹ پر لڑ رہی ہوں۔ اپنی ان تقاریر میں انہوں نے درجنوں مرتبہ اس بات کا حوالہ دیا کہ گزشتہ دن میں نے بار بار مداخلت کی۔ چنانچہ میں ان حوالہ جات کو پارلیمانی مباحث کو روکنے یا اس پر زور دینے کے ایک حصہ کے طور پر لیا ہے۔ تاہم میں نے بجٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار کے حوالوں سے فراخدلانہ موقف اختیار کیا ہے، جہاں تک بجٹ کا سوال ہے یہ بجٹ صرف اور صرف اعداد و شمار کے اطراف گھومتا ہے اور ان اعداد و شمار میں سے ہر کسی کو منصفانہ قرار دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر صرف تین اعداد غلط ہیں اور وہ بجٹ جو کہ آمدنی اور مصارف کا سالانہ تختۂ حساب ہوتا ہے لیکن یہ بجٹ کاغذات کا غیر اہم ڈھیر ہے۔ تین نمبرات کی جو میں نے بات کی ہے وہ جملہ حصولیات، جملہ مصارف اور قرض (= مالی خسارہ) ہیں۔
تین کلیدی نمبرات
یکم فروری 2020 کو جب بجٹ برائے سال 2020-21 پیش کیا گیا تب میں نے تین کلیدی نمبرات کی ساکھ پر سوال اٹھائے تھے۔ میں نے یہ کہا تھا کہ تینوں نمبرات مشتبہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ کہ ان کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں اور یہ نمبرات خود سوالات اٹھائے جانے کے قابل ہیں۔ اگرچہ میں نے تنقید کی لیکن میری تنقید کی بنیاد اس حقیقت پر مبنی تھی کہ قومی مجموعی پیداوار مسلسل ساتویں سہ ماہی کے دوران سست روی کا شکار رہی (سال 2018-19 کے چار سہ ماہی اور 2019-20 کے تین سہ ماہی)۔ اسی طرح یہ بھی دکھائی دے رہا تھا کہ قومی مجموعی پیداوار سال 2019-10 کے چوتھے سہ ماہی میں مزید نیچے آسکتی ہے۔ اسی لئے میں نے یہ بحث کی تھی کہ 2020-21 کے لئے جن منصوبوں کا اعلان کیا جارہا ہے وہ صرف امید اور تمناؤں پر مبنی ہے یعنی حکومت اس بارے میں پُرامید نظر آتی ہے۔ تاہم وزیر فینانس نے بڑی ہی برہمی کے ساتھ میری تنقید کو مسترد کردیا۔ ایک ماہ بعد کورونا وائرس کی وباء نے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 2020-21 کا آغاز بہت برے انداز میں ہوا۔ معاشی سست روی معاشی انحطاط میں بدل گئی۔ وزیر فینانس نرملا سیتا رامن نے خوش فہمی کا شکار ہوکر جس انداز میں اعداد و شمار پیش کئے تھے ان کا حصول مشکل ہوگیا۔ دراصل انہوں نے کورونا وائرس کی وباء سے لاعلم رہتے ہوئے ایک طرح سے ٹاس اچھال دیا تھا یا ٹاس اچھالنے کے لئے گئی تھیں۔ وہ غلط ثابت ہوسکتی تھیں لیکن کورونا وائرس کی وباء نے یہ ثابت کردیا کہ وہ جن امیدوں کے سہارے بجٹ سے متعلق اعداد و شمار پیش کررہی تھیں وہ غلط ثابت ہوئے۔ اس سلسلہ میں ہم بجٹ تخمینہ جات سے شروع کرتے ہیں اور (نظرثانی شدہ تخمینہ جات) 31 مارچ 2021 کو ختم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بجٹ تخمینہ جات، نظرثانی تخمینہ جات، جملہ وصولیات اور کم قرض کا جائزہ لیں تو یہ 22,45,893 اور 16,01,650 بتائے جس میں سے آمدنی محاصل جیسے ٹیکس ریونیو (مرکز کو نقد) 16,35,909 اور 13,44,501 جس میں سے غیر سرمایہ کاری 2,10,000 اور 32,000 اسی طرح جملہ مصارف 30,42,230 اور 34,50,305 بتائے گئے جن میں سے سرمایہ مصارف 4,12,085 اور 4,39,163 کے علاوہ قرض (مالی خسارہ) 7,96,337 اور 18,48,655 جس میں سے خسارہ آمدنی 6,09,219 اور 14,55,989 ہیں اور یہ تمام اعداد و شمار کروڑوں میں ہیں۔ اسی طرح کی کہانی بجٹ تخمینہ جات برائے سال 2021-22 میں بھی جاری رہی جس سے کئی سوالات پیدا ہوئے۔ میں نے پارلیمنٹ میں کچھ سوالات پوچھے جس کے کوئی جوابات نہیں تھے۔ جن سوالات کے جوابات نہیں دیئے گئے وہ کچھ اس طرح ہیں۔
-1 کس بنیاد پر حکومت اس بات کے لئے پرامید ہے کہ محاصل آمدنی یعنی ٹیکس ریونیو (مرکز کو نقد) میں سال 2021-22 میں 14.9 فیصد کا اضافہ ہوگا حالانکہ ٹیکس ریونیو 2020-21 میں جو پچھلا مالی سال ہے ایک فیصد گر گیا تھا یا اس میں ایک فیصد کی کمی آئی تھی۔ اگر ہم بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیں کہ معاشی انحطاط 2021-22 کے پہلے سہ ماہی میں ختم ہو جائے گا اس کے باوجود بھی کیا قومی مجموعی پیداوار کا نمو موثر طور پر 14.9 فیصد ٹیکس ریونیو حاصل کر پائے گا؟
-2 ایسے وقت جبکہ غیر سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی وصولیات میں گزشتہ سال 1,78,000 کروڑ روپیوں کی کمی آئی ہے تو ایسے میں 2021-22 کے لئے 1,75,000 کروڑ کا تخمینہ کس بنیاد پر کیا گیا؟
-3 کیا یہ درست ہے کہ سال 2020-21 کے جملہ مصارف کا جو RE ہے اور اس میں FCI کو دیئے گئے 2,65,095 کروڑ روپے کی باز ادائیگی بھی شامل ہے اور یہ قرض FCI نے حکومت کی طرف سے حاصل کیا؟ اگر جواب ہاں میں ہو تو پھر اسے کس طرح حکومت کے مصارف میں شمار کیا جائے گا؟ جبکہ یہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے ایک پیاکیج کے طور پر دیا گیا ہے؟
-4 اسی طرح آیا جملہ مصارف برائے سال 2021-22 کا BE جس میں FCI کو ایک قابل لحاظ رقم کی بازادائیگی بھی شامل ہے کی گئی کیا درست ہے؟
-5 دفاعی بجٹ میں 3,266 کروڑ روپے کا جزوی اضافہ فراہم کرتے ہوئے اور صحت 7843 کروڑ روپے کی تخفیف کرتے ہوئے (صفحہ 10 بجٹ بیک نظر) کیا وزیر فینانس نے 2021-22 کے جملہ مصارف سے ناانصافی نہیں کی؟ کیا شعبہ دفاع اور شعبہ صحت کو مزید فنڈس کی ضرورت نہیں؟
-6 کیا بجٹ میں مختلف محکمہ جات جیسے تعلیم، توانائی اور مختلف اسکیمات جیسے NGNREGA اور تجزیہ کے لئے بجٹ ناکافی نہیں؟
-7 حکومت نے جملہ آمدنی اور جملہ مصارف کے بارے میں جو اعداد و شمار پیش کئے اور قرض (15,06,812 کروڑ روپے) برائے سال 2021-22 کو گمراہ کرنے کے مترادف نہیں؟
-8 وزیر فینانس کے جو اعداد و شمار ہیں وہ آر بی آئی اور دیگر ماہرین کی جانب سے کئے گئے تخمینہ جات کے متضاد نہیں؟ کیونکہ وزیر فینانس نے اوسط افراط برائے سال 2021-22 کے بارے میں یہی کہا ہے کہ وہ 3.0 فیصد ہوگا۔ وزیر فینانس نے اس ضمن میں جو کچھ بھی کیا وہ کس بنیاد پر گیا ہے؟
-9 کیا حکومت FD کو تین فیصد یا اس سے کم تک کرنے سے متعلق اپنا مقصد کھو چکی ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ FRBM ایکٹ نہ صرف معطل کیا گیا بلکہ اسے دفن کردیا گیا ہے؟ تخمینہ جی ڈی پی 2021-22 کے پیش نظر کیا حکومت نے 2024-25 تک ہندوستانی معیشت 5 کھرب ڈالرس تک پہنچانے سے متعلق اپنے مقصد کے حصول سے دستبردار ہوچکی ہے؟ اگر دیکھا جائے تو یو پی اے کی حکومت نے 2013-14 میں 105 لاکھ کروڑ روپے کا جی ڈی پی چھوڑا تھا جو 2003-4 سے تین گنا زیادہ تھا۔ اس کے بعد 2017-18 میں یہ 131 لاکھ کروڑ اور 2019-20 میں 145 لاکھ کروڑ روپے ہوا۔ توقع ہے کہ 2020-21 میں یہ 130 لاکھ کروڑ تک کھسک جائے گا اور یہ سب کچھ خراب نظم اور نااہلی کے باعث ہو رہا ہے۔ آج معیشت اسی سطح پر ہے جو 3 سال پہلے تھی۔ تاہم اسے مختلف اعداد و شمار کے ذریعہ چھپایا جارہا ہے۔