افرادی قوت میں اضافہ کے باوجود خواتین صنفی امتیاز کا شکار

   

تعمیرات اور بجلی جیسی صنعتیں مکمل طور پر مردوں کے قبضہ میں : رپورٹ

نئی دہلی: سال 2024 میں ملک کی مجموعی افرادی قوت میں حصہ بڑھنے کے باوجود خواتین صنفی امتیاز کا شکار ہو رہی ہیں اور جنسی ہراسانی کی شکایات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔کام کی جگہ پر خواتین کے تئیں صنفی مساوات اورمواقع کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہندوستان میں صرف 18 فیصد رسمی ملازمت خواتین کے پاس ہے ۔ تاہم، صحت کی دیکھ بھال میں 41 فیصد اور صارفین کی خدمات 30 فیصد جیسے بعض شعبوں میں خواتین کی مضبوط نمائندگی ہے ۔ تعمیرات اور بجلی جیسی صنعتیں مکمل طور پر مردوں کے قبضے میں ہیں۔ ان دونوں شعبوں میں خواتین کی تعداد صرف تین سے چار فیصد ہے ۔مطالعہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 98 فیصد کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں کم از کم ایک خاتون ڈائریکٹر ہونے کے باوجود ایک سے زیادہ خواتین ڈائریکٹر والی کمپنیوں کے معاملے میں یہ تعداد کم ہوکر 46 فیصد رہ گئی ہے ۔ اس کے علاوہ، صرف 10 فیصد کمپنیوں نے اہم انتظامی اہلکاروں کے عہدوں پر ایک سے زیادہ خواتین کو رکھنے کی اطلاع دی ہے ، جو خواتین کے لئے اعلیٰ عہدوں میں بہت بڑا فرق ظاہر کرتی ہے ۔ تعمیرات اور اسی طرح کے شعبوں میں بھی خواتین کو تنخواہوں میں بھاری تفاوت کا سامنا ہے ۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں سالانہ 2 کروڑ روپے تک کم کماتی ہیں۔ صارفین کی خدمات اور اسپتال اور لیبارٹری کے شعبوں میں خواتین کی زیادہ نمائندگی ہے ۔تحقیق کے نتائج کے مطابق جنسی ہراسانی کی رجسٹرڈ شکایات میں اضافہ ہوا ہے ۔ رپورٹ ہونے والے کیسز میں پچھلے برسوں کے مقابلے میں 38 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ تاہم، زیر التواء شکایات کی تعداد میں 36 فیصد اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حل کو تیز کرنے اور عمل کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبوں میں میڈیا اور تفریح شامل ہیں، جہاں ہر 1000 خاتون ملازمین پر سب سے زیادہ شکایات درج کی گئی ہیں۔ اسٹڈی میں 2023-24 کے لیے 2000 سے قومی اسٹاک ایکسچینج میں درج کمپنیوں کی سالانہ رپورٹس کی بنیاد پر معلومات یکجا کی گئی ہیں۔