والدین بچوں کو اسکول سے نکال کر ان سے کام کروانے پر مجبور
کابل ۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی رابطہ کاری کی سربراہ سمانتھا مورٹ کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی کو فوری امداد کی ضرورت ہے۔ مورٹ کا کہنا تھا کہ یونیسیف سمیت دیگر امدادی اداروں کو افغانستان میں بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ ان اداروں کو شدید سردی سے قبل افغان عوام تک امداد پہنچانا ہوگی۔ مورٹ کے مطابق یونیسیف چارٹرڈ پروازوں کے ذریعے اور پاکستانی سرزمین سے افغانستان میں امداد پہنچا رہا ہے لیکن ہر روز سردی بڑھ رہی ہے، پہاڑوں پر برف باری ہو گئی ہے، دیہی علاقوں تک پہنچانا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور اب ان علاقوں تک امدادی سامان پہنچانے میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ گزشتہ ہفتہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان نے خبردار کیا تھا کہ ملک ’’انسانی تباہی کے دہانے پر ہے‘‘۔ 38 ملین کی آبادی میں سے 22 فیصد پہلے ہی قحط کے قریب ہیں اور دیگر 36 فیصد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے -مورٹ کے مطابق غربت کی سطح حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے، خاندانوں کو مایوس کن فیصلے کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ والدین بچوں کو اسکول سے نکال کر ان سے کام کروانے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا، کئی خاندان جہیز حاصل کرنے کے لیے کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کر رہے، ہم مسلح گروہوں کی طرف سے بچوں کی بھرتیوں کی شرح میں بھی اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے صدر پیٹر مورر نے گزشتہ ہفتہ کہا تھا کہ امدادی گروپوں کے لیے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر عملے کو تنخواہیں دینا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ فی الحال افغانستان میں بینک اکاؤنٹس میں تنخواہوں کی منتقلی کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان کی معیشت چالیس فیصد تک سکٹر گئی ہے۔