افغانستان سے انخلاء کا بائیڈن کا فیصلہ درست تھا: بلنکن

,

   

امریکی فوج کا افغانستان میں مزید رکنا فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا

واشنگٹن : امریکی وزیر خارجہ کی دلیل تھی کہ سابقہ صدارت نے جو بائیڈن کے لیے افغانستان سے انخلاء مکمل کرنے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا تھا۔ تاہم ریپبلیکنز نے اسے ’’ایک لا محدود پیمانے کی تباہی‘‘ قرار دیا۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن افغانستان سے انخلا کے حوالے سے پیر کے روز کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور ان کے سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی۔ تاہم ان کی باتوں سے محسوس ہوا کہ انہوں نے انخلا کے حوالے سے تمام تر ذمہ داری سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پر ڈالنے کی کوشش کی۔امریکی زیر خارجہ کا تاہم یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں مزید وقت رکنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھاکہ ہمیں ڈیڈ لائن (انخلا کا مقررہ وقت) تو ورثہ میں ملی تھی تاہم اس حوالے سے کوئی منصوبہ ورثہ میں نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس میں طالبان کی طرف سے بعض یقین دہانیوں کے عوض بین الاقوامی فورسز کی تعداد کم کرنے پر اتفاق ہوا تھا اور اسی کی وجہ سے طالبان ”نائن الیون کے بعد کی مضبوط ترین فوجی پوزیشن میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکی افواج کے انخلا کے دوران صدر جو بائیڈن اور ان کے خود کے عملے کی تمام تر توجہ ملکی شہریوں کی حفاظت پر مرکوز تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ نے فوجیوں کے انخلا کے بعد جوکچھ بھی ہونے والا تھا اس سے نمٹنے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی تھی اور اس کا استعمال بھی کیا گیا اور اس کا مسلسل جائزہ بھی لیا جا رہا تھا۔ تاہم انہوں نے کہا، ”انتہائی مایوس کن اندازوں میں بھی یہ پیش گوئی نہیں کی گئی تھی کہ امریکی افواج کے ہوتے ہوئے بھی کابل میں افغان حکومتی فورسز کو اس طرح کی پسپائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔” انہوں نے انخلا کی ”غیر معمولی کوششوں ” کی تعریف کی جس کے تحت کابل سے ایک لاکھ 24 ہزار لوگوں کو ہوائی جہاز کے ذریعے وہاں سے منتقل کیا گیا۔