افغانستان میں طالبان حکومت کے چھ ماہ مکمل

,

   

کابل ۔ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد پاکستانی حکام اور بعض سیکیورٹی ماہرین کو توقع تھی کہ شاید اب افغان سرزمین پر فعال پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف کارروائی ہو گی لیکن موجودہ صورت حال ان توقعات کے برخلاف ہے۔ افغان طالبان کے گزشتہ برس15 اگست کو افغانستان پر کنٹرول کے بعد پاکستانی حکام کو یہ امیدتھی کہ کابل کے نئے حکمران افغانستان کے صوبوں کنڑ، ننگرہار اورخوست سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے ٹھکانوں کا صفایا کر دیں گے۔ مگر چھ ماہ گزرجانے کے باوجود افغان طالبان حکام ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ اگرچہ افغان طالبان نے اپنے اہم جز حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنماؤں کی موجودگی میں پاکستان کی حکومت اور ٹی ٹی پی کو گزشتہ برس مذاکرات کی میز پر لانے اور نو نومبر سے نو دسمبر تک ایک ماہ کی جنگ بندی کرائی تھی لیکن یہ بات اس سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ ٹی ٹی پی نے گزشتہ برس 10 دسمبر کو مذاکرات کے خاتمہ کا اعلان کرنے کے بعد دہشت گردی کی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں۔ پاکستان کے سرحدی ضلع قرم میں سرحد پار شدت پسندوں کے حملے میں 5 فوجی اہلکاروں کی ہلاکت، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اوربلوچستان میں پنجگور، نوشکی اورکیچ کے اضلاع میں ایف سی ہیڈکوارٹروں پربلوچ عسکریت پسندوں کے حملے اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ سیکوریٹی ماہرین کہتے ہیں افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور پاکستان کے مخالف شدت پسند گروہ کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوئے ہیں۔