افغانستان کے دوسرے بڑے شہر پر طالبان کا حملہ

,

   

کابل۔یکم ستمبر ( سیاست ڈاٹ کام ) طالبان نے افغانستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر پر اتوار کے دن حملہ کیا ۔ ایک عہدیدار کے بموجب امریکی سفیر نے کہا تھا کہ امریکہ اور طالبان معاہدہ کی دہلیز پر ہیں جس سے امریکی فوج کی افغانستان میں تعیناتی ختم ہوجائے گی جو کسی بیرون ملک میں اب تک کے سب سے طویل عرصہ تک تعینات رہی ہے ۔ صوبہ بغلان کے ترجمان برائے پولیس سربراہ جاوید بشارت نے کہا کہ دارالحکومت کابل کے مضافاتی علاقہ میں حملے ہنوز جاری ہے ۔ ضلع قمری پر حملہ کیا گیا ، تاہم ہلاکتوں کی تعداد کا ہنوز علم نہیں ہوسکا ۔ ایک دن قبل طالبان نے افغانستان کے بڑے شہروں میں سے ایک قندوز پر حملہ کیا تھا اور 16 افراد کو ہلاک اور تقریباً 100افراد کو زخمی کیا تھا ۔ وزارت داخلہ نے اتوار کے دن کہا کہ طالبان واضح طور پر بغلان سے جنگجوؤں کے فرار کے ذمہ دار ہیں ۔ چند دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں جس سے عوام پریشان ہوگئے ۔صوبہ بغلان کی کونسل کے صدر صفدر محسنی نے کہا کہ یہ دھماکے رہائشی علاقوں میں کئے گئے تھے جہاں افغان فوج طالبان کا مقابلہ کررہی ہے اور فوری موقع واردات پر پہنچ گئی تھی ۔ اگر فوج بروقت نہ پہنچتی تو صورتحال مزید ابتر ہوسکتی تھی ۔ طالبان کا شہر میں داخلہ بہت مشکل تھا کیونکہ انہیں پسپا کرنے فوج اپنی چوکیوں پر پہنچ چکی تھی ۔ چنانچہ طالبان کوئی مزاحمت کئے بغیر فرار ہوگئے ۔ ان حملوں کو طالبان کا سودے بازی کا موقف مستحکم کرنے کی وجہ سمجھا جارہا ہے ۔ دوحہ میں امریکہ کے سفیر زلمے خلیل زاد طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں ۔ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ وہ اتوار کے دن کابل کا دورہ کریں گے اور حکومت افغانستان کو معاہدہ کی تفصیلات سے واقف کروائیں گے جو ہنوز تکمیل پذیر نہیں ہوا ہے ۔ تاہم مذاکرات کے تازہ ترین مرحلہ کا اختتام ہوچکا ہے ۔ بغلان پر تازہ حملہ خلیل زاد کے بیان کے منظر عام پر آنے کے بعد کیا گیا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طالبان باقی 14000امریکی فوجیوں میں سے 13000فوجیوں کی واپس طلبی نہیں چاہتے ۔