افغانستان کے 85% حصہ پر قبضہ کرنے طالبان کا دعویٰ

,

   

Ferty9 Clinic

l میں نہیں سمجھتا کہ طالبان افغانستان پر قابض ہوں گے : بائیڈن
l ہم حق پر ہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے : اشرف غنی

ماسکو : طالبان نے جمعہ کے روز ایک ایسا بیان جاری کیا ہے جو یقینی طور پر حیرت انگیز ہے۔ طالبان کا دعویٰ ہیکہ وہ اب افغانستان میں
85%
کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس میں ایران کے ساتھ ایک اہم سرحدی علاقہ بھی شامل ہے۔ طالبان کا دعویٰ ہیکہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی حملے کئے ہیں۔ یاد رہیکہ امریکی افواج کے افغانستان سے اخراج کو امریکی صدر جوبائیڈن کی بھی حمایت حاصل ہے۔ طالبان کے مطابق انہوں نے سرحدی مستقر اسلام قلعہ پر بھی قبضہ کرلیا ہے اور اس طرح ایران سے لگی متعدد سرحدوں پر جو چین سے بھی جاملتی ہیں، ان کا (طالبان) قبضہ ہوچکا ہے۔ ماسکو میں طالبان کے ایک وفد نے کہا کہ وہ افغانستان کے 398 اضلاع کے منجملہ 250 اضلاع پر قابض ہوچکے ہیں جو اپنے آپ میں ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی توثیق کرنا افغان حکومت کیلئے تقریباً ناممکن ہے۔ البتہ علحدہ طور پر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام قلعہ سرحدی کراسنگ پوری طرح سے ہمارے کنٹرول میں ہے جبکہ کابل میں سرکاری عہدیداروں کی جانب سے جاری کیا گیا بیان متضاد ہے۔ ان کا کہنا ہیکہ طالبان اور افغان افواج کے درمیان گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آرین نے بتایا کہ اس علاقہ میں افغان سیکوریٹی فورسیس بشمول بارڈر یونٹس موجود ہیں اور وہاں پر مکمل قبضہ کرنے کی پوری کوشش جاری ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہیکہ صرف چند گھنٹے قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے بتایا تھاکہ کابل سے فوجی مشن کا 31 اگست تک مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا جس کا آغاز 20 سال قبل ہوا تھا اور اب چونکہ امریکی فوج نے اپنے مقاصد حاصل کرلئے ہیں لہٰذا فوجی مشن کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ تاہم دوسری طرف جوبائیڈن کا یہ بھی ماننا ہیکہ صرف کابل سے ہی پورے افغانستان کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ بائیڈن نے کہا کہ جوں کی توں صورتحال ہمارا متبادل نہیں ہے اور وہ (بائیڈن) امریکی فوج کی اگلی نسل کو افغانستان میں جنگ کیلئے روانہ نہیں کرسکتے۔ اب وقت آ گیا ہیکہ افغان عوام خود ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا افغانستان میں طالبان کا ایک بار پھر اقتدار حاصل کرلینا ناگزیر ہے تو انہوں نے اس کا نفی میں جواب دیا جبکہ دوسری طرف طالبان کے ایک اور ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ امریکی فوج جتنی جلد افغانستان سے نکل جائے وہ اتنا ہی مثبت قدم ہوگا۔ حالیہ دنوں میں ایک صوبائی دارالخلافہ میں افغان کمانڈوس کی شورش پسندوں سے پہلی بار جھڑپیں ہوئی تھیں جہاں شمال مغربی صوبہ بدغیز میں واقع قلعۂ نا سے ہزاروں افراد نکل بھاگے تھے جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ صورتحال پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اعتراف بھی کیا کہ ایسا کرنے میں مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ اقتدار کی منتقلی اپنے پیچیدہ ترین مرحلہ سے گزر رہی ہے۔ بہرحال ہم حق پر ہیں اور اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ سہیل شاہین نے یہ بھی کہا کہ وہ اقتدار کی اجارہ داری پر اعتماد نہیں کرتے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہیکہ جاریہ ہفتہ طالبان کے حملہ سے بوکھلا کر زائد از 1000 افغان فوجی تاجکستان چلے گئے۔