افغانستان ۔ تاجکستان سرحد پر دنیا کی نظریں

   

وجئے پرساد
افغانستان و تاجکستان تقریباً 1400 کیلومیٹر طویل فاصلے تک پھیلی سرحد شیئر کرتے ہیں۔ حال ہی میں تاجکستان کے صدر امام علی رحمن اور کابل کی حکومت یعنی طالبان کے درمیان لفظی جنگ شروع ہوئی۔ امام علی رحمن نے وسطی ایشیا کو غیرمستحکم کرنے کیلئے طالبان کی سرزنش کی اور موجودہ حالات کیلئے طالبان کو ذمہ دار قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان وسطی ایشیا میں عسکریت پسند گروپوں کو درآمد کررہے ہیں جبکہ جواب میں طالبان قیادت نے حکومت تاجکستان پر افغانستان کے داخلی اُمور میں مداخلت کا الزام عائد کیا۔ اس سے پہلے رواں موسم گرما میں صدر تاجکستان نے سرحد پر اپنے 20 ہزار سپاہیوں کو تعینات کیا اور فوجی مشق کا انعقاد عمل میں لایا۔ انہوں نے سی ایس ٹی او کے دیگر ارکان اور روس سے تبادلہ خیال بھی کیا۔ سی ایس ٹی او دراصل وسطی ایشیا کے ممالک کی تنظیم کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن ہے۔ اسی دوران افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جوابی ٹوئٹ کرتے ہوئے ایسی تصاویر پوسٹ کیں جس میں صوبہ تخار کی سرحد پر جو تاجکستان سے ملتی ہے، افغان سپاہیوں یعنی طالبان کو تعینات دکھایا گیا ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران دونوں ملکوں کے دوران سخت الفاظ کا تبادلہ عمل میں آیا۔ دونوں کے درمیان جنگ کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا، لیکن تاجکستان میں روس کا جو کردار ہے، اس کے پیش نظر جنگ کا کوئی امکان پیدا نہیں ہوتا۔
مارچ 2021ء کو افغانستان کے سفیر متعینہ تاجکستان محمد زاہد اکبر نے یاد کیا کہ 1990ء کے اوائل میں احمد شاہ مسعود نے کابل میں تاجک جنگجوؤں کے ایک گروپ سے کہا تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ جنگ، اسلام کے بیانر تلے افغانستان سے تاجکستان منتقل ہو۔ یہی بہت ہوچکا کہ ہمارا ملک مسلسل تباہ و برباد ہوکر رہ گیا۔ انہوں نے تاجک جنگجوؤں سے یہ بھی کہا تھا کہ جاؤ اپنے ملک اور امن قائم کرو ۔ احمد شاہ مسعود نے حکومت دشمن متحدہ تاجک اپوزیشن کی تائید کی تھی۔ متحدہ اپوزیشن کی قیادت آئی آر پی نے کی تھی، لیکن اسے بہ آسانی بھلا دیا گیا۔ 15 اگست 2021ء کو طالبان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اور صالح و مسعود کے دوشنبے کو فرار ہونے سے کچھ گھنٹے قبل 2 ستمبر کو امام علی رحمن نے اپنے مرحوم دوست احمد شاہ مسعود کے لئے تاجکستان کا سب سے اعلیٰ شہری اعزاز ’’آرڈر آف اسمائیلی سمونی‘‘ کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مقصد صالح کی زیرقیادت مزاحمتی تحریک کو تحفظ فراہم کرنا تھا اور ساتھ ہی امام علی رحمن حکومت کا کابل کیلئے یہ واضح اشارہ تھا کہ ہم طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں تاجک صدر کا کہنا تھا کہ اصل وجہ یہ ہے کہ طالبان نے مخالف تاجک موقف اختیار کیا لیکن یہی واحد وجہ نہیں ہوسکتی۔ ہر چار افغان شہریوں میں ایک تاجک ہے اور کابل کی نصف آبادی اپنے تاجک النسل ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اقتصادی اُمور کے وزیر قاری دین محمد حنیف نہ صرف ایک تاجک ہیں، بلکہ تاجکستان کی سرحدوں سے متصل صوبہ بدخشاں سے وہ آئے ہیں۔ امام علی رحمن کی اصل تشویش یہ ہے کہ طالبان کے باعث علاقہ عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔
تاجک طالبان
11 ستمبر 2021ء کو تاجکستان کے علماء کی اسلامی کونسل کے سربراہ سید مکرم عبدالقدیر زادہ نے طالبان کی مذمت کرتے ہوئے انہیں اسلام دشمن قرار دیا اور کہا کہ طالبان ، خواتین کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھتے ہیں اور وہ دہشت گردی کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ عبدالقدیر زادہ تاجکستان کے سرفہرست ائمہ میں شامل ہیں۔ انہوں نے ائمہ مساجد میں انتہا پسندانہ خیالات کے بڑھاوا کو روکنے کیلئے ایک دہے سے کوشش شروع کی اور وہ اس عمل کی قیادت بھی کرتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ائمہ مساجد میں انتہا پسندی کو بڑھاوا ملے۔ نتیجہ میں کئی ایسے ائمہ کو تبدیل کردیا گیا جنہوں نے بیرونی مدارس میں تربیت حاصل کی تھی۔ (خود عبدالقدیر زادہ اسلام آباد پاکستان کے ایک مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔) حکومت نے نہ صرف ایسے ائمہ کو تبدیل کیا بلکہ مساجد کو حاصل ہونے والی بیرونی امداد پر بھی قریبی نظر رکھی۔ عبدالقدیر زادہ ہمیشہ اس تباہ کن خانہ جنگی کی بات کرتے ہیں جو 1992-97ء کے درمیان پیدا ہوئی تھی جس کے نتیجہ میں تاجکستان منتشر ہوا۔ 1990ء کے درمیان جب سوویت یونین کی تباہی و بربادی کا آغاز ہوا اور 1992ء میں جب خانہ جنگی شروع ہوئی، تب ایک ہزار سے زائد مساجد یعنی ایک دن میں ایک سے زائد مساجد ملک میں کھولی گئی۔ سعودی عرب کی رقم اور اس کے اثر و رسوخ نے تاجکستان میں حالات تبدیل کرکے رکھ دیئے۔ اس وقت دائیں بازو کے افغان رہنماؤں احمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار کے کافی چرچے تھے۔ امام علی رحمن سپریم اسمبلی تاجکستان کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ (1992-94ء) اور پھر 1994ء سے انہوں نے صدر کے فرائض انجام دینے شروع کئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مرحوم احمد شاہ مسعود کے دوست ہونے کا دعویٰ کرنے والے امام علی رحمن نے اسلام پسند آئی آر پی کے خلاف لڑائی کی قیادت کی اور 1997ء میں اسے عملاً کچل دیا گیا لیکن خانہ جنگی کا بھوت 2010ء میں پھر ظاہر ہوا جب ملا امرالدین تباروف نے جو اسلام پسند پارٹی آئی آر پی کے کمانڈر تھے، جماعت انصاراللہ قائم کی۔ 1997ء میں امرالدین تباروف اسلامی تحریک ازبکستان (آئی ایم یو) میں شامل ہونے کیلئے ازبکستان فرار ہوگئے۔ جنگ کے اسی خوف کے نتیجہ میں امام علی رحمن اقتدار سے چمٹ کر رہے اور انہوں نے تاجکستان میں کسی بھی قسم کی جمہوری کوششوں اور عمل کو ہر طریقے سے دبا کر رکھ دیا۔ ستمبر کے وسط میں رحمن نے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کونسل کے رکن ممالک کے سربراہان کے اجلاس کی میزبان کی اور خاص طور پر پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ عمران خان نے تاجک صدر پر زور دیا کہ وہ طالبان کے خلاف لفظی جنگ سے گریز کریں۔ اب رحمن یہ چاہتے ہیں کہ طالبان ، انصار اللہ پر قابو رکھیں اور طالبان یہ چاہتے کہ رحمن کی حکومت ، کابل حکومت کو تسلیم کرے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب آگے کیا ہوتا ہے۔