افغانوں نے امریکی دبدبہ ختم کردیا

   

عمر اسد شیخ
امریکہ نے 9/11 دہشت گردانہ حملوں کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے بہانہ سال 2001ء میں افغانستان پر حملہ اور پھر قبضہ کیا، وہاں اقتدار طالبان کے ہاتھوں میں تھا۔ حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ افغانستان جیسے ملک پر قبضہ سے قبل افغانستان نے ایک گولی تک نہیں چلائی اور نہ ہی کوئی افغان باشندہ کسی ایک امریکی شہری کے قتل میں ملوث تھا۔ طالبان کا صرف ایک قصور تھا اور وہ قصور یہ تھا کہ 9/11 دہشت گردانہ حملوں کے وقت القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن سرزمین افغانستان پر موجود تھے۔ امریکہ نے جب یہ الزام عائد کیا کہ اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القاعدہ، امریکہ میں دہشت گردانہ فضائی حملوں میں ملوث ہے تب طالبان نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اُسامہ کو خاطی ثابت کرنے کیلئے ثبوت و شواہد پیش کرے۔ طالبان نے یہاں تک رضامندی کا اظہار کیا تھا کہ وہ اسامہ بن لادن کو ان کے مبینہ جرائم کی پاداش میں مقدمات کا سامنا کرنے ایک تیسرے غیرجانبدار ملک کے حوالہ کردیں گے لیکن طالبان کی اس معقول پیشکش کو نامعقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر بش نے بڑی حقارت کے ساتھ مسترد کردیا اور پھر انہوں نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ شروع کردی۔ اس جنگ کے بھیانک نتائج امریکہ کو بھگتنے پڑے۔ 21 سال کی خون آشامی کے دوران امریکہ اور اس کے اتحاد نیٹو
(NATO)
ممالک کی فورسیس نے سرزمین افغانستان پر بموں کی بارش کردی۔ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ افغان شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے سوویت یونین کے قبضہ کے بعد افغانستان میں جو کچھ بچا ہوا تھا، اسے بھی پوری طرح تباہ و برباد کر ڈالا۔
21 برسوں تک افغانستان پر قابض رہنے اور ہزاروں لاکھوں افراد کی اموات و ہلاکتوں کا باعث بننے کے بعد امریکہ کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور افغانستان کی اس 21 سالہ جنگ میں امریکہ نے ہر چیز ہار دی اور اس کے بارے میں ساری دنیا میں ’’ناقابل تسخیر‘‘ ہونے کا جو تصور پایا جاتا تھا، وہ بھی ختم ہوگیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دو دہوں سے زائد عرصہ تک جاری رہی اس جنگ میں ہر دو کا نقصان ہوا۔ بی بی سی1 کے مطابق 21 سالہ اس بھیانک جنگ میں اتحادی فورسیس کے 3,500 سپاہی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے جن میں 2,300 امریکی سپاہی تھے۔ 20,660 سپاہی زخمی ہوئے اور ان زخمیوںمیں کچھ شدید زخمی ہوئے۔ طالبان سے جنگ کے نتیجہ میں ہزاروں کی تعداد میں امریکی اور نیٹو ممالک کے سپاہیوں کی زندگیوں پر منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے، وہ مختلف نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔ دوسری جانب طالبان سے مقابلہ میں 64,100 افغان سپاہیوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں۔ بی بی سی 1 کے اعداد و شمار میں یہ بھی بتایا گیا کہ 1,11,000 افغان شہریوں کو بھی اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا (امریکی فورسیس کو اس بارے میں حقیقی اعداد حاصل نہ ہوسکے شاید ، اس لئے 21 برسوں کی لڑائی میں مرنے والے افغان شہریوں کی تعداد بہت زیادہ ہوسکتی ہے) طالبان کے ساتھ جنگ میں امریکہ کو جہاں شدید جانی نقصان برداشت کرنا پڑا، وہیں اس نے امریکی ٹیکس دہندوں کے 82 ارب ڈالرس ضائع کئے۔ برطانیہ نے 30 ارب ڈالرس اور جرمنی نے 19 ارب ڈالرس پانی کی طرح بہائے، تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایک اور اہم بات یہ رہی کہ ان تمام برسوں میں امریکہ اور نیٹو کا کنٹرول بڑے شہروں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ جبکہ طالبان نے بیشتر افغانستان پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا اور اب جبکہ امریکی اور نیٹو فورسیس افغانستان سے جاچکی ہیں، کوئی بے وقوف ہی یہ سوچے گا کہ اقتدار پر افغان فوج قابض ہوگی اور وہ طالبان کو شکست دینے کی اہل ہوگی۔ آئندہ چند ہفتوں میں طالبان افغانستان کے چہار سو اپنا کنٹرول قائم کریں گے۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسیس کی شکست سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں ایک بہت بڑی دفاعی اور جنگی چال بازی سے متعلق تاریخی غلطی کے مرتکب ہوئی جس کا نتیجہ ان کی شکست اور افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کی شکل میں نکلا۔ اب بھی کئی ایسے سیاسی پنڈت اور خود ساختہ سیاسی تجزیہ نگار و ماہرین ہیں جو افغانستان پر امریکی قبضہ کو حق بجانب قرار دینے اور امریکی دامن پر لگے شکست کے داغ کو دھونے کی کوششوں میں مصروف ہیں (ان لوگوں کیلئے ایسا کرنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ان کی روزی روٹی کا معاملہ ہے)۔ اس طرح کے تبصرہ نگاروں کے بارے میں یہ سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں کہ وہ کتنے سنجیدہ ہیں اور کس حیثیت سے، کس بنیاد پر وہ ایسے سوالات اُٹھا رہے ہیں؟ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت نیٹو اور امریکی فورسیس دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر سرزمین افغانستان کو تباہ و برباد کررہے تھے اور بارونق افغان شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کررہے تھے ، اس وقت وہ خاموش کیوں تھے؟ اس تباہی سے سب سے زیادہ افغان شہری متاثر ہوئے۔
افغانستان کی تاریخ بہت خطرناک ہے۔ ماضی میں بھی یہ ملک کئی سوپر پاورس کیلئے قبرستان ثابت ہوا ہے۔ سلطنت برطانیہ کو بھی اس قوم نے ایسا سبق سکھایا، شاید آج بھی برطانیہ، افغانوں کے ہاتھوں اپنی ہزیمت کے زخموں کو مندمل نہیں کرپایا۔ سوویت یونین نے بڑی بے وقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے برطانیہ کے حشر سے سبق نہیں سیکھا اور اس غلطی کا ارتکاب کیا جس غلطی کی سلطنت برطانیہ مرتکب ہوئی تھی اور جب افغانستان میں قبضے کے نتیجہ میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا، دوسروں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ سال 2001ء میں امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کیا اور 21 برسوں کے بعد بھی اسے ناخوشگوار یادوں کے ساتھ رخصت ہونا پڑا۔ اب امریکہ کے اندرونی حالات کیا ہونے والے ہیں، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ امریکیوں کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے ملک امریکہ نے برطانیہ کے خلاف ایک طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسرے جنگ عظیم میں یوروپی ملکوں کو فاشسٹوں سے بچانے میں امریکہ نے جو کردار ادا کیا، وہ قابل ستائش ہے۔ اس کی آج بھی ستائش کی جاتی ہے۔ امریکہ میں داخلی جمہوریت کا جو ارتقا ہوا یا ان کی جو شہری حقوق کے متعلق تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور امریکہ نے جس طرح سائنسی و صنعتی شعبوں میں ترقی اس کی ساری دنیا متعارف ہے۔