کابل: افغان حکام نے کہا ہے کہ انہوں نے 400 طالبان قیدیوں کو رہا کرنا شروع کیا ہے جو دونوں متحارب فریقین کے مابین طویل عرصے سے تاخیر کا شکار امن مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے۔ذرائع کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے نمائندے قیدیوں کی رہائی مکمل ہونے کے کچھ دن کے اندر ملاقات کریں گے۔’اے ایف پی‘ کے مطابق جمعرات کو 80 قیدیوں کے ایک گروپ کو رہا کیا گیا اورقومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے براہ راست مذاکرات اور ملک گیر سیز فائر کیلئے کوششیں تیز ہوجائیں گی۔ہفتے کے آخر میں 400 عسکریت پسندوں کی رہائی کی منظوری ہزاروں ممتاز افغانوں کے ایک اجتماع نے دی تھی جس نے کہا تھا کہ وہ دوحہ اور قطر میں بات چیت اور ممکنہ سیز فائر کیلئے مذاکرات کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔لیکن سیکڑوں سخت گیر عسکریت پسندوں کو آزاد کرنے کا فیصلہ نے ان کے ہاتھوں ہلاک افراد کے اہل خانہ کیلئے دلآزاری کا باعث بنا ہے۔ایک سرکاری فہرست کے مطابق ان قیدیوں میں کم از کم 44 ایسے باغی شامل ہیں جن کی رہائی کے حوالے سے امریکہ اور دوسرے ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ یہ مختلف ممالک میں بم دھماکوں میں ملوث رہے ہیں۔آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے کہا کہ اس ہفتے کے اوائل میں انہوں نے افغان فوج کے ایک سابق فوجی کو جیل میں رکھنے کے لیے لابنگ کی جہاں اس فوجی نے بدمعاشی کرتے ہوئے تین آسٹریلوی ساتھیوں کو جیل میں ہلاک کردیا تھا۔صدر اشرف غنی نے جمعرات کو متنبہ کیا کہ سخت گیر مجرموں سے ہمیں، امریکہ اور دنیا کو خطرہ لاحق ہے۔انہوں نے امریکی تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ایک ویڈیو کانفرنس میں کہا کہ کم از کم اس مسئلے تک امن کی خواہش پر اتفاق رائے ہوا تھا لیکن اس کی یہ قیمت طے نہیں ہوئی تھی لیکن اب ہم نے لاگت پر بڑی قسط ادا کردی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ امن کے نتائج برآمد ہوں گے۔