افغان شہریوں کو یورپ سے بیدخل نہ کرنے ،کابل کی اپیل

   

Ferty9 Clinic

کابل: کابل حکومت نے یورپی ملکوں سے افغان شہریوں کی بے دخلی کم از کم تین ماہ کے لیے روک دینے کی اپیل کی ہے۔افغانستان ان دنوں متعدد بحرانوں سے دوچار ہے۔ ایک طرف عسکریت پسند ملک کے مختلف علاقوں پر تیزی سے قبضہ کررہے ہیں، حالانکہ سرکاری فورسز ان کا مقابلہ کررہے ہیں۔ دوسری طرف اندرون ملک خاندانوں کی نقل مکانی کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جبکہ کووڈ کی تیسری لہر نے حالات کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ اس سنگین صورت حال کے مد نظر افغانستان حکومت نے یورپی ملکوں سے درخواست کی ہے کہ وہ افغان شہریوں کی جبری ملک بدری کم از کم تین ماہ کے لیے موخر کردیں۔افغانستان کی مہاجرین اور وطن واپسی کی وزارت نے ایک بیان میں کہا،’’ملک میں دہشت گرد گروپ طالبان کی طرف سے تشدد میں اضافہ اور کووڈ انیس کی وبا کی تیسری لہرکی وجہ سے بڑے پیمانے پر معاشی اور سماجی بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور یہ لوگوں کے لیے پریشانی اور مسائل کا سبب بن رہے ہیں۔”اس وقت بہت سے یورپی ممالک افغان شہریوں کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں جنگ زدہ ملک میں واپس بھیج رہے ہیں۔ مثال کے طورپر جرمنی سے افغانوں کے گروپ کو بے دخل کرکے کابل بھیجا جا رہا ہے۔چہارشنبہ کے روز ہی جرمنی سے بے دخل کردیے جانے والے 27 افغان شہری کابل پہنچے۔ یہ دسمبر 2016 کے بعد سے جرمنی سے بے دخل کرکے افغانستان بھیجے جانے والے شہریوں کا چالیسواں گروپ تھا۔ برلن اب تک پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند 1104 طالبان کو واپس بھیج چکا ہے۔ افغانستان کی مہاجرین اور وطن واپسی کی وزارت نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ یورپ سے افغانوں کی واپسی پریشان کن ہے۔’’ہم میزبان ملکوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ افغان شہریوں کو اگلے تین ماہ تک جبری ملک بدر کرنے سے گریز کریں۔”اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق افغان مہاجرین کی سب بڑی اکثریت ہمسایہ ملک پاکستان میں مقیم ہے جس کے بعد ایران اور یورپ کا نمبر آتا ہے۔ ادارے نے 2018 میں افغانستان سے 25لاکھ پناہ گزینوں کا اندراج کیا تھا۔یورپی ملکوں سے افغان شہریوں کی جبراً بے دخلی کا معاملہ خاصا متنازع ہے۔ اس اقدام کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پناہ کے خواہش مند افراد کو جنگ زدہ ملک میں واپس بھیجنا انتہائی خطرنا ک ہے۔امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی فورسز نے یکم مئی سے افغانستان سے حتمی انخلاء شرو ع کر دیا ہے جس کے بعد سے ملک میں غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ طالبان عسکریت پسندوں کی جانب سے تقریباً روزانہ حملے ہو رہے ہیں اور فوجی کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے عام شہریوں کی ہلاکتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسند بھی ملک میں سرگرم ہوگئے ہیں۔