افغان فوج کے قیمتی لڑاکا طیارے کوڑیوں کے مول فروخت

   

Ferty9 Clinic

چند سال میں ناکارہ قرار دیئے جانے والے 16 طیارے صرف 40 ہزار ڈالرس میں امریکی کمپنی کو بیچ دیئے گئے
اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن کی تازہ رپورٹ میں انکشاف

کابل:افغانستان کی فوج کیلئے 50 کروڑ ڈالرس سے زیادہ مالیت کے خریدے گئے 20 میں سے 16 ٹرانسپورٹ طیارے صرف چند سال ہی میں ناکارہ قرار دیے جانے کے بعد صرف 40ہزار ڈالر میں فروخت کر دیے گئے۔ افغانستان کی تعمیر نو کیلئے امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ مالی امداد پر نظر رکھنے کیلئے بنائے گئے امریکی ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل آف افغان ری کنسٹرکشن کی تازہ ترین رپورٹ میں ان طیاروں کے بارے میں تحقیقات کی تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔یہ طیارے افغانستان کے لیے اٹلی سے خریدے گئے تھے،انسپکٹر جنرل کی اس رپورٹ کے مطابق امریکہ کی مالی امداد سے افغانستان کی تعمیر نو کے منصوبوں میں دو اعشاریہ 4ارب ڈالر کے منصوبے تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ انصاف نے مئی 2020 میں ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جی 222 ایئرکرافٹ پروگرام میں جو ناکامی ہوئی اس میں کسی پر فوجداری یا سول مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی محکمہ انصاف کے اعلامیہ کی روشنی میں اس معاملے میں کسی کو جواہدہ یا موردالزام نہیں ٹھہرایا جائے گا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ 54 کروڑ 90 لاکھ ڈالر سے دوبارہ استعمال کے قابل بنائے گئے 20 جی 222 طیارے اٹلی سے افغانستان کی مسلح افواج کے لیے خریدے گئے تھے۔ ان میں سے 16 کو صرف چند سال میں ہی اسکریپ یا ناکارہ قرار دے کر 40 ہزار ڈالر میں بیچ دیا گیا جبکہ چار طیارے اب بھی جرمنی میں ایک امریکہ ہوائی اڈے پر کھڑے ہیں۔رپورٹ کے مطابق نومبر 2006 میں امریکہ کی سینٹرل کمانڈ ایئر فورس نے افغانستان کی افواج کے لیے میڈیئم لفٹ طیاروں کی ضرورت کو محسوس کیا۔امریکی فضائیہ (یو ایس اے ایف) نے فیصلہ کیا کہ اٹلی کی فضائیہ کی طرف سے ریٹائر کیے جانے والے جی 222 طیاروں کو ایلینا نارتھ امریکہ نامی ایک کمپنی کے ذریعے خریدا جائے۔افغانستان سکیورٹی فورسز فنڈ (اے ایس ایف ایف) کے لیے مختص کی گئی رقم کو 30 ستمبر 2008 تک خرچ کرنے کی مدت ختم ہونے سے پہلے یہ ٹھیکہ دینے کی جلدی میں حکام نے متعلقہ قواعد فیڈرل ایکوزیشن ریگولیش کو پسِ پشت ڈال کر ستمبر 2008 میں اس واحد کنٹریکٹر کو یہ ٹھیکہ دے دیا۔نومبر 2009 سے مارچ 2013 تک سولہ طیارے کابل انٹرنیشنل ہوائی اڈے جبکہ چار جرمنی میں ریمسٹین کے فوجی ہوائی اڈے پر پہنچا دیے گئے۔انسپکٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی تحقیقات کے مطابق امریکی فوج کا ایک جنرل جو اب ریٹائرڈ ہو چکا ہے اس سودے کا ذمہ دار تھا اور فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اس کمپنی کے لیے کام کرنے لگا جس نے یہ طیارے فروخت کیے تھے۔رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ طیاروں کا یہ سودہ جس امریکی کمپنی سے کیا گیا اس کے بارے میں امریکی ایئر فورس کی طرف سے خبردار کیا گیا تھا لیکن ان تمام چیزوں کو نظر انداز کر کے ٹھیکہ اسی کمپنی کو دے دیا گیا۔انسپکٹر جنرل کی اسی رپورٹ کے مطابق امریکہ کی مالی امداد سے افغانستان کی تعمیر نو کے منصوبوں میں 2.4 ارب ڈالر کے منصوبے تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ درجنوں تعمیراتی منصوبے جن میں اسکول، دواخانہ اور بجلی پیدا کرنے والے کارخانے شامل ہیں سرکاری سطح پر غفلت، استعمال نہ کیے جانے، غیر معیاری تعمیراتی کام یا جنگ کی وجہ سے یا تو تباہ ہو گئے ہیں یا زبوں حالی کا شکار ہیں۔اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن کی فروری کے آخری ہفتے میں جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ منصوبے افغانستان کے صوبوں بغلان، بلخ، فرح، غزنی، ہرات، جوزگان، کابل، قندھار، خوست، قندوز، لغمان، ننگرہار، نمروز، پکتیکا، پکتیہ اور پروان میں بنائے گئے تھے۔