صحافیوں اور اپوزیشن کا اظہار برہمی‘ حیران کن اور ناقابل قبول‘حکومت کی خاموشی پر سوال
نئی دہلی ۔11؍اکتوبر( ایجنسیز ) افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی جمعرات سے7دنوں کیلئے ہندوستان کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے جمعہ کو وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے بھی ملاقات کی اس کے بعد پریس کانفرنس کی۔ تاہم خواتین صحافیوں کو کانفرنس میں شرکت سے روک دیا گیا۔جے شنکر کے ساتھ ملاقات میں متقی نے دو طرفہ تجارت، انسانی امداد اور سیکورٹی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے تاہم سب سے زیادہ زیر بحث مسئلہ پریس کانفرنس میں خاتون صحافیوں کی غیر حاضری کا تھا۔افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی دہلی کے سفارت خانے میں ہونے والی پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کو باہر کیے جانے پر اپوزیشن نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے “حیران کن اور ناقابل قبول” قرار دیا۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے کہا کہ خواتین کو ہر جگہ پر مساوی شرکت کا حق حاصل ہے اور اس طرح کے امتیازی سلوک کے خلاف مودی کی خاموشی ’’ناری شکتی‘‘ (خواتین کی طاقت) پر آپ کے نعروں پر سوالیہ نشان لگاتیہے۔طالبان کے وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس میں خاتون صحافیوں پر پابندی کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ کسی خاتون صحافی کو پریس کانفرنس میں مدعو نہ کرنا ناقابل قبول اقدام ہے۔ ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں مرد صحافیوں کو احتجاجاً پریس کانفرنس سے واک آؤٹ کرنا چاہیے تھا۔اس پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کی عدم موجودگی افغانستان میں خواتین کی حالت زار کی عکاسی کرتی ہے۔ افغانستان میں خواتین کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے خاص طور پر اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے خواتین کے حقوق پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
خاتون صحافیوں کوکانفرنس میں دانستہ نہیں روکا گیا
افغانستان کے ترجمان سہیل شاہین کا بیان
نئی دہلی ۔ 11 ۔ اکٹوبر ( ایجنسیز ) افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ نئی دہلی میں افغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کا نہ ہونا ’’غیر ارادیعمل تھا اور اسے طالبان کی کسی پالیسی کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔شاہین نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ خواتین کے خلاف کسی امتیازی پالیسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پریس پاسز کی تعداد محدود تھی کچھ لوگوں کو ملے اور کچھ کو نہیں۔ یہ ایک تکنیکی مسئلہ تھا، پالیسی نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس معاملے پر خود افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے بات کریں گے۔افغانستان کے وزیر خارجہ کی دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں خاتون صحافیوں کو مدعو نہ کرنے کا مسئلہ تنازعہ کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
متقی کی پریس کانفرنس میں وزارتِ خارجہ ہند کا کوئی کردار نہیں
نئی دہلی۔ 11 اکتوبر (یو این آئی) وزارتِ خارجہ نے واضح کیا ہے کہ افغانستان کے وزیرِ خارجہ کی جانب سے جمعہ کے روز منعقدہ پریس کانفرنس میں ہندوستانی وزارتِ خارجہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔ وزارتِ خارجہ کی یہ وضاحت اُس وقت سامنے آئی جب پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کے داخلے پر پابندی کے باعث تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ وزارت نے ہفتے کے روز اپنے بیان میں کہا کہ افغانستان کے وزیرِ خارجہ کی جانب سے کل دہلی میں منعقدہ پریس کانفرنس میں وزارتِ خارجہ کی کوئی شمولیت نہیں تھی۔ قابلِ ذکر ہے کہ افغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی ایک ہفتے کے ہندوستانی دورہ پر ہیں۔ انہوں نے جمعہ کے روز وزیرِ خارجہ ڈاکٹر ایس۔ جے شنکر سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کے بعد افغانستان کے سفارت خانہ میں چنندہ صحافیوں سے گفتگو کی تھی۔ اس پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کے داخلے پر پابندی عائد تھی۔ خواتین صحافیوں نے اس فیصلے پر سوشل میڈیا پر سخت احتجاج کیا اور وزارتِ خارجہ سے اس معاملے پر اپنا مؤقف واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔
، جنہیں بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے صنفی امتیاز سے تعبیر کیا ہے۔گزشتہ ماہ افغانستان میں ایک ہفتے کے اندر تیسرا زلزلہ آیا جس میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ خواتین اس تباہی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئیں جو ملبے کے نیچے پھنسی ہوئی تھیں کیونکہ طالبان کے نافذ کردہ سخت قوانین کے تحت مرد بچانے والوں کو خواتین کو چھونے سے منع کیا گیا تھا۔ بہت سی خواتین متاثرین کو خواتین ریسکیورز کے پہنچنے تک انتظار کرنا پڑا جن کی تعداد پابندی کی وجہ سے بہت کم تھی۔ طالبان نے 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول یعنی 6ویں جماعت سے اوپر یونیورسٹی کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ 2025 تک لاکھوں لڑکیاں اسکول اور کالج سے محروم ہوجائیں گی۔یونیسکو کے مطابق گیارہ لاکھ سے زائد لڑکیاں اسکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ تعلیم یافتہ خواتین کی کمی کی وجہ سے صحت اور بچاؤ جیسے شعبوں میں خواتین پیشہ ور افراد کی شدید کمی ہوئی ہے ۔