حکومت سے رپورٹ طلب، پانچ جائیدادوں کی ترقی کا فیصلہ، صدرنشین محمد سلیم کی پریس کانفرنس
حیدرآباد۔ 27 جنوری (سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ کے اجلاس میں اقلیتی اقامتی اسکولوں کی تعمیر کے لیے وقف اراضی لیز پر دیئے جانے کے معاملے کو پھر ایک بار ٹال دیا گیا۔ صدرنشین محمد سلیم کی صدارت میں آج حج ہائوز میں اجلاس منعقد ہوا جس میں گزشتہ اجلاس میں ملتوی کیئے گئے اقامتی اسکول سوسائٹی کو وقف اراضی الاٹمنٹ پر تفصیلی غور کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض ارکان نے وقف اراضی حکومت کے اسکولوں کی تعمیر کے لیے الاٹ کرنے کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو جب وقف بورڈ کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تو پھر بورڈ حکومت کے لیے کیوں اراضی الاٹ کرے۔ ارکان نے شکایت کی کہ بورڈ کا ریکارڈ روم ابھی تک حکومت کی تحویل میں ہے۔ اس کے علاوہ بورڈ میں کیڈر اسٹرینتھ کی منظوری حکومت کی جانب سے ابھی زیر التوا ہے۔ جب بورڈ کے معاملات کی یکسوئی حکومت سے ممکن نہیں تو پھر ہم کیوں کر اسکولوں کے لیے اپنی اراضی دے سکتے ہیں۔ مقامی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اس تجویز کی سختی سے مخالفت کی جبکہ دیگر ارکان اگرچہ تائید میں تھے لیکن وہ مخالفت پر حاوی نہ ہوسکے۔ واضح رہے کہ سابقہ اجلاس میں بھی اس معاملے پر ہنگامہ آرائی ہوئی تھی اور رکن پارلیمنٹ حیدرآباد سے مشاورت کے بعد قطعی فیصلہ کرنے سے اتفاق کیا گیا تھا۔ آج کے اجلاس میں رکن پارلیمنٹ کو مدعو نہیں کیا گیا کیوں کہ بورڈ کے رکن کی حیثیت سے ان کا انتخاب ابھی باقی ہے۔ تفصیلی مباحث کے بعد بورڈ نے اسکولوں کے لیے وقف اراضی کے سلسلے میں حکومت سے رپورٹ طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سکریٹری اقلیتی بہبود سے رپورٹ طلب کی گئی کہ لیز کی شرائط، کرایہ اور اسکولوں کی تعداد جیسے امور کی وضاحت کی جائے۔ اسکولوں کی تعمیر پر خرچ ہونے والی رقم اور دیگر امور کے بارے میں سکریٹری اقلیتی بہبود سے تفصیلی رپورٹ ملنے کے بعد ہی بورڈ میں اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے گا۔ واضح رہے کہ حکومت 50 اقامتی اسکولوں کی ذاتی عمارتوں کی تعمیر کے لیے وقف اراضیات کو لیز پر لینے کی تجویز رکھتی ہے۔ تاہم بورڈ میں اختلاف رائے کے سبب یہ مسئلہ تعطل کا شکار ہے۔ بورڈ نے درگاہ حضرات یوسفینؒ کے امور کی نگرانی کے لیے عارضی متولی کو ایک سال کی توسیع سے اتفاق کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بورڈ کے ایک رکن نے اس مسئلے پر اصرار کرتے ہوئے تقریباً ایک گھنٹے تک اجلاس کی کارروائی کو روک دیا۔ وہ عارضی متولی کو انتظامات حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے رہے جس پر بورڈ نے ایک سال کے لیے توسیع دینے کو منظوری دے دی۔ عارضی متولی کی میعاد ختم ہونے کے بعد انتظامات کو راست نگرانی میں لے لیا گیا تھا۔ عارضی متولی سید شبیر محمد محمدالحسینی نے کو ایک سال کی توسیع دی جائے گی۔ بعد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم نے بتایا کہ ایجنڈے میں 82 امور شامل تھے جن میں 20 مساجد اور قبرستان کی کمیٹیاں اور تین متولی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ درگاہ یوسفینؒ کے انتظامات کی نگرانی کے لیے عارضی متولی کی توسیع محض انتظامی امور کے حد تک رہے گی۔ فینانشیل پاورس وقف بورڈ کے پاس رہیں گے اور غلوں کی نگرانی اور ذمہ داری وقف بورڈ کی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں پانچ اوقافی جائیدادوں کی ترقی کو منظوری دی گئی ہے جن میں ٹاسک فورس آفس، خیریت آباد اور شیخ پیٹ کی اراضیات شامل ہیں۔ بورڈ نے امام باڑے کی تعمیری کاموں اور 15 عارضی ملازمین کو ایک سال کی توسیع کو بھی منظوری دے دی۔ انہوں نے کہا کہ اقامتی اسکولوں میں غریب طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں لہٰذا عمارتوں کی تعمیر کے لیے بورڈ اراضی لیز پر دینے کا فیصلہ آئندہ اجلاس میں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ گٹلا بیگم پیٹ کی اراضی کے بارے میں ہائی کورٹ کے سنگل جج کے فیصلے کو ڈیویژن بنچ پر چیلنج کیا جارہا ہے۔ سینئر وکلاء کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اپیل کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ اور ٹربیونل میں زیر التوا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ٹائٹل طے کرنے کا اختیار ہائی کورٹ کو حاصل نہیں۔ لہٰذا سنگل جج کے احکامات موصول ہوتے ہی ڈیویژن بنچ پر اپیل کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اوقافی جائیدادوں کے غیر مجاز رجسٹریشن کو روکنے کے لیے رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ کو مکتوب روانہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حج ہائوز سے متصل زیرتعمیر عمارت کا کام اندرون دو ماہ شروع ہوگا اور اس عمارت میں اقلیتی بہبود کے دفاتر منتقل کیئے جائیں گے۔ اجلاس میں ارکان مولانا سید اکبر نظام الدین حسینی صابری، صوفیہ بیگم، مرزا انوار بیگ، ملک معتصم خان، زیڈ ایچ جاوید، وحید احمد اور نثار حسین حیدر آغا نے شرکت کی۔