اقتصادی مشیر اعلیٰ کے مشورےحکومت سننے تیار نہیں

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ

جہاں تک مجھے یاد ہے مودی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے اب تک جتنے بجٹ پیش کئے گئے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ سیاسی بجٹ ہے، ایک ایسا بجٹ جسے سیاسی فوائد اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کیا گیا۔ یہ ایسا بجٹ ہے جو معیشت کی اصلاح اور اس کی ساخت کو ازسرِ نو جاندار بنانے کے موقع سے فائدہ اُٹھانے میں بھی بُری طرح ناکام رہا۔ عوام تو تیار تھے لیکن حکومت نے انہیں ناکام کردیا۔ 2025، سال 1991 کا آئینہ دار ہے اور ایسے میں 2024 کی صورتحال پر نظر ڈالنا بھی ضروری ہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ بی جے پی کو تیسری مرتبہ اقتدار حاصل ہوا، لیکن عوام نے اس مرتبہ ( تیسری مرتبہ ) اسے ایک طرح سے سخت انتباہ دیا ہے، وارننگ دی ہے کہ آپ کے پاس کافی تعداد ہوگی لیکن اتنی تعداد نہیں یا اکثریت نہیں ہوگی جس کے بل بوتے آپ حکومت تشکیل دے سکیں یعنی آپ قطعی اکثریت سے محروم ہوں گے، آپ دستور یا آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، آپ اتفاق رائے سے حکومت کریں گے، آپ بیروزگاری ، غربت، عدم مساوات، مہنگائی، کسانوں کی پریشانی و مایوسی اور غیرحاضر یا ٹوٹ پھوٹ کا شکار انفرااسٹرکچر جیسے مسائل پر توجہ دے کر ان مسائل کو حل کریں گے ، ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ ویسے بھی یہ وہی صورتحال ہے جس کا سامنا 1991 میں نرسمہا راؤ اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کو کرنا پڑا لیکن اُن میں ( نرسمہا راؤ اور منموہن سنگھ ) اور آپ ( بی جے پی ) میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
1991 میں مایوس کن اور پریشان کن معاشی حالات کے باوجود اُس وقت کے پی ایم اور ایف ایم ( وزیر اعظم اور وزیر فینانس ) نے نہ صرف پریشانیوں پر قابو پایا بلکہ ملک کی معاشی سُست روی کو تیز پیشرفت میں تبدیل کردیا۔ کانگریس کے وزیراعظم اور وزیر فینانس نے مواقعوں کا بہتر انداز میں فائدہ اُٹھایا اور یکم جولائی 1991 سے شروع ہونے والی رجحان ساز معاشی اصلاحات کا اعلان کیا اور 15 اگسٹ 1991 تک معاشی اصلاحات کا پہلا مرحلہ مکمل کیا ( اس مرحلہ میں روپیہ کی قدر میں کمی، تجارتی اصلاحات ، مالیاتی شعبہ میں اصلاحات، محاصل میں اصلاحات اور صنعتی پالیسی شامل تھے ) چونکہ پی وی نرسمہا راؤ وزیر اعظم اور ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بحیثیت وزیر فینانس بہت زیادہ جوکھم مول لیا تھا اور بڑی ہی جرأت و ہمت کے ساتھ ان اصلاحات پر عمل آوری بھی کی تھی اس لئے اس کے بہتر بلکہ توقع سے زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد مودی حکومت کا پہلا بجٹ وزیر فینانس محترمہ نرملا سیتا رامن نے پیش کیا جو یقیناً بہت ہی مایوس کن تھا۔ اس بجٹ میں بنیادی شعبوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے کچھ بھی نہیں تھا چونکہ یہ مکمل بجٹ نہیں تھا اس لئے مودی اور نرملا سیتا رامن نے یہ وعدہ کیا کہ ان مسائل کو مکمل بجٹ پیش کرتے ہوئے پورا کیا جائے گا۔
دریں اثناء معیشت سُست روی اور اجرتیں جمود کا شکار ہوگئیں، ملک میں مہنگائی کا راج رہا اور ریزروبینک آف انڈیا نے جھکنے سے انکار کردیا، دوسری جانب بیرونی راست سرمایہ کاری کے بہاؤ میں بھی بہت زیادہ کمی آئی۔ FIIS نے جو سرمایہ مشغول کیا تھا وہ سرمایہ نکال لیا، حد تو یہ ہوئی کہ ہمارے ملک کے کاروبار اور کاروباری حضرات نے سنگاپور، دبئی اور امریکہ منتقلی کو غنیمت جانا اور اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جابسے۔ تاجرین و صنعت کاروں اور ملکی سرمایہ کاروں نے دوسرے ملکوں کو منتقلی کے ساتھ اپنا سرمایہ بھی منتقل کردیا۔ ہر کسی کی زبان پر یہی سوال تھا کہ آخر حکومت کو اس کی کوتاہیوں، اس کی ناکامیوں اور ناقص معاشی پالیسیوں و پروگرامس کی طرف کون توجہ دلائے گا۔ ان حالات میں شکر ہے کہ چیف اِکنامک اڈوائزر ( معاشی اُمور کے مشیر اعلیٰ ) نے راست بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کو سمجھدارانہ مشوروں سے نوازا۔ انہوں نے اِکنامک سروے ( ای ایس ) 2024-25 کے پیشِ لفظ میں صاف طور پر حکومت کو بتایا کہ معاشی سُست روی کی وجوہات کیا ہیں ۔ انہوں نے مسابقت میں بہتری لانے کیلئے حکومت کو مشورہ دیا کہ اس نے معیشت کو جس راہ پر گامزن کیا ہے سب سے پہلے اس راہ کو تبدیل کرے۔ انہوں نے حکومت کو deregulates سے متعلق بھی کئی ایک سنجیدہ مشوروں سے نوازا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری وزیر فینانس نے چیف اِکنامک اڈوائزر کے مشورہ کے برعکس راہ اختیار کی۔ انہوں نے جاریہ اسکیمات کیلئے نہ صرف مزید رقم منظور کی بلکہ 7 اسکیمات، 8 مشنس اور 4 فنڈز کے اعلانات کئے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ deregulation کے بارے میں کوئی خاص تجویز پیش ہیں کی گئی اور نہ ہی کسی بھی اہم شعبہ میں مسابقت یا مسابقتی رجحان کو بہتر بنانے کیلئے کوئی اقدامات کئے گئے، ہاں وہ صرف غیر مالیاتی شعبہ کے قواعد کا جائزہ لینے ریگولیٹری ریفارمس کیلئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کا اعلان کرسکی، اس کا مطلب یہ تھا کہ فینانشیل سیکٹر ہنوز حکومت کے کنٹرول میں رہے گا اور کوئی بھی جائزہ نہیں لیا جائے گا۔
اگر ہم موجودہ حالات میں ملک کو درپیش مسائل کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان مسائل میں سب سے سنگین مسئلہ بیروزگاری اور خاص طور پر وہ خاندان اِس مسئلہ سے بُری طرح متاثر ہیں جن کے بچے بیروزگار ہیں۔ اِکنامک سروے کے چیاپٹر 12 میں جو روزگار اور فروغ مہارت سے متعلق ہے ای ایس نے پیریڈک لیبر فورس سروے ( پی ایل ایف ایس ) پر انحصار کیا جس میں واضح طور پر یہ کہا گیا کہ سال 2023-24 میں بیروزگاری کی شرح میں 3.2 فیصد کی کمی آئی اور جسے اِکنامک تھیوری میں مکمل روزگار تصور کیا جاتا ہے۔ ای ایس نے اس نکتہ کو اُجاگر کیا کہ ہمیں سال 2030 تک ہر سال 78.5 لاکھ نان ۔ فارمس روزگار کے مواقع یا ملازمتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ سال 2030 کا بطورِ خاص اس لئے ذکر کیا گیا کیونکہ اس وقت تک کام کرنے کی عمر کی حامل آبادی 96 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ ملک میں ریگولر ؍ تنخواہ والی ملازمتوں میں گراوٹ آئی ہے اور سیلف ایمپلائمنٹ (خود روزگار ) بشمول ذاتی زراعت باالفاظ دیگر Own Farms میں اضافہ ہوا ہے۔ جہاں تک تنخواہ یاب طبقہ کا سوال ہے اس میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں چنانچہ تنخواہ یاب مَردوں میں حقیقی ماہانہ تنخواہ 12665 روپئے سے گھٹ کر 11858 روپئے ہوگئی ( اور ایسا پچھلے سات برسوں میں ہوا ، اس کے ساتھ ہی خود روزگار کے حامل لوگوں کی Real Wages میں بھی گراوٹ درج کی گئی۔ یہ ایسے زمینی حقائق ہیں جو PLFS کے حتمی نتیجہ کے متصاد ہیں ، ایسے میں کیا وزیر فینانس PLFS اور ES سے اتفاق کرتی ہیں۔ اس معاملہ میں ان کی خاموشی سچائی سے انکار اور سچائی کو چھپانے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب جی ڈی پی نمو پاتی ہے ایک اوسط رفتار سے تب بیروزگاری میں اضافہ ہوتا رہتا ہے خاص طور پر نوجوانوں اور گریجویٹس میں بیروزگاری بڑھتی ہے اور روزگار کے مواقع تعطل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ملک میں بے شمار مسائل ہیں ‘ ہر شعبہ کسی نہ کسی مسئلہ سے دوچار ہے۔ جہاں چیلنجز ہیں وہاں حکومت بھی تو ہے لیکن حکمرانی غائب ہے اور جہاں تک چیف اِکنامک اڈوائزر کے حکومت کو مشوروں کا سوال ہے ان کی آواز ایسی ہی ہے جیسے ویران و بیابان میں کوئی صدا لگارہا ہو اور اس کی صداؤں کو سننے والا کوئی نہیں ہے۔