جانا ریڈی کے حق میں محمد علی شبیر کی انتخابی مہم، ٹی آر ایس پر رقومات تقسیم کرنے کا الزام
حیدرآباد : کانگریس پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ ناگر جنا ساگر اسمبلی حلقہ میں سماج کے تمام طبقات کی تائید کانگریس امیدوار جاناریڈی کو حاصل ہے اور ضمنی چناؤ میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ سابق اپوزیشن لیڈر محمد علی شبیر نے مرّے پلی دیہات، انامولا منڈل میں انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ انھوں نے اقلیتی رائے دہندوں کے علاوہ خواتین کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے۔ ناگر جنا ساگر کی ترقی کے لئے کانگریس کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔ انھوں نے کہاکہ کانگریس کے جلسوں اور ریالیوں میں عوام جوق درجوق شرکت کررہے ہیں اور ٹی آر ایس کے برخلاف رقم کی تقسیم کے بغیر ہی عوام کانگریس کے ساتھ تائید کا اظہار کررہے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ تمام منڈلوں میں جاناریڈی کے حق میں لہر واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں ٹی آر ایس قائدین بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ انتخابی مہم کے آخری ایام میں ٹی آر ایس کی جانب سے دولت اور شراب کی تقسیم کا منصوبہ ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ کونسل انتخابات کی طرح رائے دہندے ناگر جنا ساگر میں ٹی آر ایس کے لالچ کا شکار نہیں ہوں گے۔ محمد علی شبیر نے کہاکہ کانگریس پارٹی نے ہر گھر رائے دہندوں سے ربط قائم کرتے ہوئے انتخابی مہم میں شدت پیدا کی ہے۔ خواتین بالخصوص اقلیتی طبقہ کی خواتین نے کانگریس کی تائید کا تیقن دیا ہے کیوں کہ جانا ریڈی نے ناگر جنا ساگر میں تمام طبقات کی بھلائی کے لئے کام کیا۔ اُنھوں نے دعویٰ کیاکہ ٹی آر ایس کو رائے دہی کے موقع پر مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھاری رقومات اور سرکاری مشنری کے استعمال کے باوجود ٹی آر ایس کی شکست طے ہے۔ ریاستی وزراء اور عوامی نمائندوں سے رائے دہندے مختلف سوالات کررہے ہیں۔ محمد علی شبیر نے کہاکہ کانگریس قائدین انتخابی مہم میں چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے وعدوں پر عمل آوری کے بارے میں عوام کو واقف کرارہے ہیں کہ کس طرح گزشتہ 6 برسوں میں عوام کو دھوکہ دیا گیا۔ اُنھوں نے کہاکہ کے سی آر خاندان کے 40 افراد اہم عہدوں پر فائز ہیں جبکہ لاکھوں بے روزگار نوجوان 6 برسوں سے سرکاری ملازمتوں کے منتظر ہیں۔ اقلیتیں، دلت اور ایس سی ایس ٹی طبقات نے جاناریڈی کی تائید کا اعلان کیا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ ریاستی وزراء جگدیش ریڈی، محمود علی، سرینواس یادو، سرینواس گوڑ کابینہ میں اپنی برقراری کو یقینی بنانے کے لئے دن رات انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ لیکن اُنھیں عوام کی جانب سے تائید حاصل نہیں ہورہی ہے۔