اقلیتوں سے امتیازی سلوک کے خلاف انتباہ ؟

   

رگھو رام راجن

ملک میں فی الوقت اپوزیشن مہنگائی کے نام پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش کررہی ہے اور یہ درست بھی ہے کہ مہنگائی نے ہم ہندوستانیوں کی زندگیوں میں ایک بے چینی، ایک قسم کی پریشانی پیدا کرتے ہوئے ساری قوم کو مایوسی کی طرف ڈھکیل دیا ہے۔ پٹرول، ڈیزل، خوردنی تیلوں، سبزیوں، چاول، گیہوں، آٹا، دودھ، شہد ، میوؤں، ادویات، غرض انسانی زندگی کیلئے ضروری تمام اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ عام طور پر ہندوستانی عوام کی اکثریت مختلف اقسام کی دالوں کا بہت زیادہ استعمال کرتی ہیں، لیکن دالوں کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین اقتصادیات ہوں یا پھر اپوزیشن سیاست داں ان کا یہی کہنا ہے کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ پر کنٹرول کرنے میں حکومت پوری طرح ناکام ہوگئی ہے اور عام آدمی بے بس و مجبور ہوگیا ہے۔ وہ اب یہی سوچ رہا ہے کہ کرے تو کیا کرے۔ ایک طرف ڈالر کے مقابلے روپیہ کی قدر میں بھی کمی ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات میں ماہرین اقتصادیات کیا کہتے ہیں۔ وہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ حال ہی میں NDTV نے ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھورام راجن سے بات کی، یہ وہی رگھو رام راجن ہیں، جنہوں نے ہندوستان میں اسلامک بینکنگ کی تائید و حمایت کی تھی، بہرحال رگھورام راجن سے کی گئی گفتگو کے اقتباسات یہاں پیش کئے جارہے ہیں۔
عالمی معیشت ان دنوں بحران سے دوچار ہے، کورونا کا عالمی معیشت پر بہت زیادہ منفی اثر مرتب ہوا ہے۔ افراطِ زر آسمان کو چھو رہی ہے۔ ہندوستان میں جاری ترقی کا عمل ایسے ملازمتوں کیلئے ناکافی ہے جن کی ہندوستان میں ضرورت ہے اور گزشتہ چند برسوں سے ملازمتوں کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر ملک کو ترقی خاص طور پر معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہو تو ہمیں اپنے لوگوں کی مہارت میں اضافہ کرنا ہوگا، انہیں تعلیم یافتہ بنانا ہوگا۔ جہاں تک ہماری ملک کی معیشت کا سوال ہے، یقیناً یہ دنیا کی دیگر معیشتوں سے کہیں زیادہ ترقی پذیر ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہمیں کس سطح کی ترقی درکار ہے اور ترقی یا نمو اس لئے درکار ہے کیونکہ ہمارا ملک ایک غریب ملک ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پچھلے برسوں میں جس قسم کی ملازمتوں میں اضافہ ہوا، اس کیلئے ترقی ناکافی ہے۔ ان حالات میں کیا ہم آرام کرسکتے ہیں؟ خود کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی کوششوں سے دور رکھ سکتے ہیں؟ ہرگز ہرگز نہیں بلکہ ہمیں تو مزید ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ 7% شرح نمو مضحکہ خیز بات ہے۔ یہاں تو کوئی شارٹ کٹس نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے لوگوں کی مہارت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ان کی تعلیمی قابلیت کو بڑھانا ہوگا۔ ہماری نسل اس نسل کیلئے شدید خطرہ ہے جو آئندہ دس برسوںمیں اسکول ٹرک کرے گی یا گریجویٹ ہوجائے گی۔ اگر ہم مہارت کی بنیاد مضبوط کرسکتے ہیں تو پھر ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہاں! جہاں تک ڈالر کے مقابل روپئے کی قدر میں گراوٹ کا سوال ہے، روپئے کو اس کے حال پر چھوڑ دیں جب افراط زر قابو میں آئے گا تو برآمدات کی سطح کو دیکھتے ہوئے روپیہ خودبخود اپنی سابقہ سطح پر پہنچ جائے گا۔ اس بات کی امید ضرور ہے کہ آنے والے دنوں میں افراط زر میں کچھ نہ کچھ کمی آئے گی۔ ایک اور اہم بات میں یہ کہنا چاہوں گا یہ کہنے کی ایک الگ وجہ بھی ہے کہ ہم سری لنکا جیسے حالات سے گذر رہے ہیں۔ سری لنکا میں جو حالات ہیں، ان حالات سے فی الوقت ہم بہت دُور ہیں لیکن میں ایک اور حقیقت بھی بیان کروں گا جو اقلیتوں کا مسئلہ ہے اور ملک میں ان کا مقام یا موقف ہے۔ مثال کے طور پر ٹامل سری لنکا میں ایک بڑی اقلیت ہے۔ جب ان لوگوں کو بیروزگاری کا مسئلہ درپیش ہوا۔ وہاں کے لیڈروں نے اقلیتوں کے ان مسائل سے توجہ ہٹانا خاص طور پر بالکل آسان پایا، اس رجحان سے تصادم کی صورتحال پیدا ہوئی اور جس کا نتیجہ خانہ جنگی کی شکل میں برآمد ہوا۔ (رگھو رام راجن نے اپنی گفتگو میں اقتصادی ماحول پر فرقہ وارانہ تصادم کے اثرات پر بھی تبادلہ خیال کیا)۔ اس بارے میں راجن کہتے ہیں کہ لوگ فکرمند نہیں، پہلے وہ عواقب و نتائج کے بارے میں سوچیں، اچھی بات یہ ہے کہ ہم (ہندوستان) سری لنکا کے حالات تک ابھی نہیں پہنچے، ہندوستان ابھی بھی اس سے کچھ دور ہے، لیکن کچھ سیاست دانوں کی طرف سے اس آگ کو جس طرح کا ایندھن دیا جارہا ہے یعنی جس طرح فرقہ پرستی کی آگ بھڑکائی جارہی ہے، اس کے پیش نظر ہمیں فکر کرنا شروع کردینا چاہئے۔ دوسری چیز جو وہ سوچتے ہیں، وہ یہ ہے کہ آیا میں ایک ایسے ملک کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتا ہوں جہاں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟ اس ضمن میں راقم آپ کو چین کی مثال دیتا ہے، اگر آپ چین کی طرف دیکھتے ہیں، اس نے ایغور مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا؟ ایغور مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کے نتیجہ میں یوروپ اور امریکہ سے چین کو کافی صدمے ملے چینی مصنوعات پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے صبر و تحمل، ایثار و خلوص اور بااحترام جمہوریت کا اہم کردار ہوتا ہے اور دنیا میں ایسے ہی جمہوری ملکوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس سوال پر آیا ہندوستان ایک فراخدلانہ جمہوریت ہے؟ رگھورام راجن کہتے ہیں ’’میں یہ کہنا چاہوں گا کہ صرف اندرون 10 سال اگر ہم اچھے کام کرتے ہیں تو جو کچھ ہم نے کھویا اسے دوبارہ پاسکتے ہیں لیکن آپ اقلیتوں کو ستانے کی روش اور راہ پر گامزن رہیں گے تو پھر مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں ہر کسی نے دیکھا کہ پچھلے چند برسوں سے بناء کسی مشاورت کے من مانے فیصلے کئے گئے ، مثال کے طور پر نوٹ بندی کا نفاذ ہے، اسے حکومت نے بناء کسی مشاورت کے نافذ کیا۔ ایک اور مثال زرعی بلز ہیں جن کی شدت سے مخالفت کی گئی (اور پھر حکومت ان بلز کو واپس لینے پر مجبور ہوئی) جمہوریت میں اس وقت فائدہ ہوتا ہے جب سب کو ساتھ لے کر چلا جائے یا آگے بڑھا جائے، سب کیساتھ چلنے میں ہی کامیابی ہے، ورنہ سری لنکا کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔
واضح رہے کہ رگھورام راجن نے این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دینے کے ساتھ ساتھ چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں آل انڈیا پروفیشنل کانگریس کے کنونشن سے خطاب میں کہا کہ اقلیتوں کو دوسرے درجہ کے شہری بنانے کی کوئی کوشش بھی ملک کو تقسیم کردے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے پڑوسی ملک سری لنکا کی مثال پیش کی، ان کا کہنا تھا کہ جب وہاں کے لیڈر ملازمتیں فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس ناکامی سے توجہ ہٹانے کی کوشش میں اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں اور سری لنکا اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مستقبل ہماری آزادانہ و فراخدلانہ جمہوریت اور اس کے اداروں کو مضبوط و مستحکم کرنے میں ہے، نہ کہ انہیں کمزور کرنے میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مستحکم کرنا ملک کی ترقی کیلئے واقعی ضروری ہیں جبکہ اقلیتوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش سے داخلی انتشار پیدا ہوگا۔ رگھو راجن کے مطابق ہمارے نوجوان نوکریوں کے حصول کے خواہاں ہے۔ اس سلسلے میں مرکز کی اگنی ویر اسکیم کی مثال دی جاسکتی ہے جس کے خلاف نوجوانوں نے پرتشدد مظاہرے کئے۔