اقلیتوں کو صرف نعروں تک محدود نہ رکھا جائے:آر روشن بیگ

,

   

مدھیہ پردیش میں مسلم نوجوانوں پر کارروائی کی شدید مذمت
نئی دہلی:8 ؍فروری(سیاست نیوز)کرناٹک کے سینئر کانگریس رہنما آر روشن بیگ نے آج پارٹی قیادت کی موجودگی میں کہا کہ مسلمانوں کو نعروں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے اقدامات کئے جائیں ۔ کل منعقدہ اے آئی سی سی شعبۂ اقلیت کے قومی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ قیادت والی کانگریس حکومت کے اس اقدام پر تنقید کی کہ وہاں گئو کشی کے الزام پر تین مسلم نوجوانوں پر قومی سلامتی قانون کے تحت مقدمے درج کئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر کانگریس حکومت کے ذریعہ اس طرح کی کارروائی ہوتو مسلمانوں کا پرسان حال کون ہوگا؟ جبکہ کانگریس قیادت بھی بخوبی جانتی ہے کہ 99 فیصد مسلمانوں نے قطاروں میں کھڑے ہوکر کانگریس کو ووٹ دیا، جس کے نتیجے میں پارٹی کو اقتدار حاصل ہوا ہے۔جناب روشن بیگ نے سوال کیا کہ اگر ایسا رویہ اختیار کیا گیا تو ہم لوگ کونسا چہرہ لے کر لوک سبھا انتخابات میں مسلمانوں کے سامنے جائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کو اس خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ ان کی ملکیت ہے۔سینئر لیڈر طارق انور کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نعرہ دیا گیا تھا’’آدھی روٹی کھائیں گے، اندرا جی کو لائیں گے‘‘ مگر آج ایسا نعرہ ہوگیا کہ ہمارا نیتا کیسا ہو، جس کے پاس پیسا ہو،ایسے حالات سیاسی نظام کے لئے تشویشناک ثابت ہوں گے۔سابق مرکزی وزیر کے رحمان خان کے دور میں اوقافی امور سے متعلق تشکیل شدہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس کمیٹی کے ذریعہ اوقافی امور سے متعلق جو سفارشات کی گئی ہیں ان کے نفاذ کے لئے اے آئی سی سی شعبہ اقلیت کو تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے بتایا کہ حیدر آباد میں جس طرح محمد علی شبیر نے آنجہانی راج شیکھر ریڈی کے ساتھ جد وجہد کرکے مسلمانوں کو چار فیصد ریزرویشن دلانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔اسی طرح مسلمانوں کے مفادات کے لئے ہمارے قائدین کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔جناب روشن بیگ نے بتایا کہ کانگریس پارٹی بھی اقلیتوں کی طرح بنیاد پرستی کی مخالف ہے اور مخالف رہے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ لوک سبھا انتخابات سے قریب مزید ڈرامے بازیاں ہوں گی۔وزیر اعظم نریندر مودی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے جناب روشن بیگ نے سوال کیا کہ ساڑھے چار سال بعد اچانک انہیں بھگوان رام کیوں یاد آنے لگے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی جذبات کو ابھارنے کے ذریعے تشدد اور منافرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ایسے میں کانگریس پارٹی کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ہمارے کارکنوں کو چاہئے کہ کہیں دلتوں پر حملہ ہورہا ہے تو ان کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔وہیں اگر کسی مسلمان پر ظلم ہورہا ہے تو ہماری پارٹی کے ہندو کارکن کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان کے حق میں کھڑے ہوجائیں۔اسی طرح اگر کانگریس کا مسلم امیدوار ہوتو اسے ہندو کا ووٹ ملے اور کہیں ہندو امیدوار ہوتو اسے مسلمان کا ووٹ بھی ملنا چاہئے۔اس کے لئے پارٹی کارکنوں کو جد وجہد کرنے کے علاوہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔جناب روشن بیگ نے اس بات پر اعتراض کیا کہ پرینکا گاندھی کی سرگرم سیاست میں واپسی کے بعد مرکز کے ذریعہ ان کے شوہر واڈرا کو ستایا جانے لگا ہے جو جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔