اقلیتوں کیلئے حکومت کی قرض اسکیم ، مستحقین کو تلخ تجربات

   

کوہیر میں می سیوا سنٹرس کی من مانی ، انکم و کاسٹ سرٹیفکیٹس وغیرہ کیلئے 200 تا 300 روپئے کے اخراجات

کوہیر /21 ڈسمبر ( محمد طیب علی کی رپورٹ ) تلنگانہ حکومت کی جانب سے بے روزگار میناریٹی تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے سبسیڈی پر بنکوں کے تحت 50 کروڑ روپیوں کے لون قرض دینے کا اعلان کیا ہے ۔ اس کے بعد نوجوانوں میں ایک خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔ جب لون قرض کے اصول قواعد کے شرائط کے تکمیل کیلئے می سیوا سنٹر پر پہونچنے پر ایک تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس موقع پر محمد اشرف علی سابق کوآپشن ممبر کانگریس پارٹی نے بتایا کہ ریاستی تلنگانہ حکومت مسلمانوں کو ہتھیلی میں جنت دیکھا رہی ہے ۔ سبسیڈی قرض صرف برائے نام 50 کروڑ روپئے دے رہی ہے جوکہ نہ کے برابر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب ایک شخص اپنی آمدنی اور قومیت کے سرٹیفکیٹ کیلئے درخواست داخل کرنے پر سرٹیفکیٹ کے موصول ہونے تک تقریباً 200 تا 300 روپئے کو خرچ ہو رہے ہیں ۔ نہیں معلوم کتنے لوگوں یہ قرض حاصل ہوگا ۔ جبکہ یہاں می سیوا سنٹروں پر سلف افیڈیوٹ یا پھر بغیر افیڈیویٹ کیلئے سرٹیفکیٹ جاری کیا جارہا ہے ۔ می سیوا سنٹر پر 150 روپئے وصول کئے جارہے ہیں ۔ می سیوا سنٹر پر جو رسید دی جاتی ہے اس پر صرف 45 روپئے درج ہے ۔ دریافت کرنے پر می سیوا سنٹرس پر دوسرے اخراجات بتارہے ہیں ۔ اس میں می سیوا سنٹروں کی من مانی چل رہی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ تلنگانہ ریاست بھر میں 50 ہزار درخواست داخل کی گئی تو حکومت می سیوا کے ذریعہ 2250 لاکھ روپئے کی آمدنی ہوگی ۔ اس طرح می سیوا سنٹر والوں کو ایک درخواست کے داخل کرنے پر 100 تا 150 روپئے کی آمدنی ہوگی اور فائل درخواست داخل کرنے کیلئے پھر دوبارہ 22.50 لاکھ روپئے آمدنی ہوگی ۔ اس طرح حکومت تلنگانہ غریب مجبور بے روزگار نوجوانوں کو کس طرح بے وقوف بنارہی ہے ۔ اس طرح ہر شعبہ جات میں مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ یہی اقلیتی دوست حکومت ہے ذرا غور کریں ۔