اقلیتوں کی بھلائی کے کھوکلے دعوے، بجٹ صرف %35 خرچ

   

اقلیتی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان، حکومت کی عدم دلچسپی، کئی اسکیمات صرف کاغذ پر
حیدرآباد۔ 31 ڈسمبر (سیاست نیوز) ٹی آر ایس حکومت نے اقلیتوں کی بھلائی کے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے اسمبلی انتخابات میں تائید حاصل کی لیکن بجٹ میں اقلیتی بہبود کے لیے مختص کردہ رقومات کے خرچ کا جائزہ لیں تو مایوسی ہوگی۔ مالیاتی سال 2018-19ء میں اقلیتی بہبود کے لیے مختص کردہ بجٹ کی 35 فیصد رقم خرچ کی گئی اور باقی 64 فیصد بجٹ سرکاری خزانے میں عملاً واپس ہوچکا ہے۔ اب جبکہ فبروری میں نیا بجٹ پیش کیا جائے گا، محکمہ فینانس نے اسکیمات کے لیے رقم کی اجرائی کو روک دیا ہے۔ اقلیتی بہبود کے لیے 1973 کروڑ بجٹ مختص کیا گیا تھا لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف 703.24 کروڑ خرچ کیے گئے جو مجموعی بجٹ کا 35.6 فیصد ہوتے ہیں۔ محکمہ فینانس نے مختلف اقلیتی اداروں میں اسکیمات کے سلسلہ میں بلس داخل کیے اور 200 کروڑ سے زائد کے بی آر اوز جاری کیے گئے لیکن محکمہ فینانس نے انہیں کلیئرنس نہیں دیا جس کے سبب اقلیتی اداروں کو بجٹ کی قلت کا سامنا ہے۔ کے سی آر حکومت اقلیتوں کے بجٹ کو 2000 کروڑ کرنے کا بار بار دعوی کرتے ہوئے اقلیتوں کی تائید حاصل کرنے میں کوشاں رہی۔ مرکزی بجٹ میں اقلیتی بہبود کے لیے 4000 کروڑ کا حوالہ دیتے ہوئے ٹی آر ایس نے کہا کہ کسی بھی ریاست میں تلنگانہ کے مماثل بجٹ مختص نہیں کیا گیا لیکن 2018-19ء میں اقلیتی بہبود کے بجٹ کے خرچ کا جائزہ لیں تو کئی اسکیمات کا بجٹ کی عدم اجرائی کے سبب آغاز نہیں ہوسکا۔ بعض اسکیمات ایسی ہیں جن کے لیے بجٹ مختص ہے لیکن اسکیم تیار نہیں کی گئی۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ بجٹ کے خرچ سے لگایا جاسکتا ہے اور اقلیتی بہبود سے حکومت کی دلچسپی کا اندازہ اقلیتوں کے لیے مختص رقومات کے خرچ سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ اقلیتی بجٹ کے خرچ میں ناکامی کی اہم وجہ محکمہ اقلیتی بہبود کا قلمدان چیف منسٹر کے پاس ہونا ہے۔ اس قلمدان کو کسی وزیر کے حوالے نہیں کیا گیا جس کے سبب فائیلوں کی یکسوئی میں عہدیداروں کو دشواری پیش آرہی ہے اس کے علاوہ اقلیتی بہبود کے لیے گزشتہ ایک برس میں مستقل سکریٹری کو مقرر نہیں کیا گیا۔ دو آئی اے ایس عہدیداروں نے اقلیتی بہبود کی زائد ذمہ داری سنبھالی۔ موجودہ سکریٹری اقلیتی بہبود کو بھی زائد ذمہ داری کے طور پر اقلیتی بہبود کا محکمہ دیا گیا ہے۔ سید عمر جلیل کو اقلیتی بہبود کی مکمل ذمہ داری دی گئی تھی اور ان کے تبادلے کے بعد یہ محکمہ زائد ذمہ داری کے تحت چل رہا ہے۔ اقلیتی بہبود کی مختلف اسکیمات کے تحت بجٹ کے خرچ کا جائزہ لیں تو اقلیتی فینانس کارپوریشن کی اسکیمات زیادہ متاثر نظر آئیں گی۔ گزشتہ تین برسوں سے سبسڈی اسکیم پر عمل نہیں کیا گیا اس کے علاوہ ٹریننگ ایمپلائمنٹ اسکیم پر برائے نام عمل آوری ہوئی ہے۔ بینکوں سے مربوط سبسیڈی اسکیم کے لیے 160 کروڑ میں 18 کروڑ 86 لاکھ خرچ کیے گئے۔ ایم ایس ڈی پی اسکیم کے تحت مختص کردہ 90 کروڑ میں 18 کروڑ 75 لاکھ خرچ ہوئے ہیں۔ پری میٹرک اسکالرشپ کے 30 کروڑ میں صرف 2 کروڑ 37 لاکھ روپئے خرچ کیے گئے۔ اردو اکیڈیمی کی مختلف اسکیمات کے لیے 40 کروڑ مختص کیے گئے تھے لیکن محض 7 کروڑ روپئے کے خرچ کی اطلاع ہے۔ اقلیتی اقامتی اسکول سوسائٹی کے لیے 735 کروڑ میں سے 169 کروڑ 75 لاکھ خرچ ہوئے ہیں۔ فیس بازادائیگی اسکیم کے لیے 248 کروڑ روپئے مختص کیے گئے تھے جس میں 132.8 کروڑ جاری کیئے گئے۔ پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے 100 کروڑ میں 48.66 کروڑ روپئے خرچ ہوئے ہیں۔ اقلیتوں کو چھوٹی صنعتوں کے قیام کے سلسلہ میں رہنمائی اور مدد کے لیے ٹی پرائم اور ٹی ایس ای زیڈ اسکیمات متعارف کی گئیں لیکن ابھی تک اسکیمات کے رہنمایانہ خطوط مدون نہیں کیے گئے جس کے نتیجہ میں 25 کروڑ روپئے جوں کے توں باقی ہیں۔