نوٹیفکیشن میں مسلم نوجوانوں کو 12% تحفظات کے تحت تقررات کرنے عوام کی اپیل
2023انتخابات میں مسلمان ووٹ مخالف ٹی آر ایس جائیں گے!
حیدرآباد ۔ 28 مارچ (شاہنواز بیگ کی خصوصی رپورٹ) تلنگانہ حکومت ہمیشہ سے اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ ٹی آر ایس پارٹی ایک ایسی سکیولر پارٹی ہے جو ہر مذہب کا احترام کرتی ہے، ان کی نظر میں ہندو مسلم سب برابر ہیں، لیکن حال ہی میں کارپوریشن کے عہدوں پر غیرمسلم لیڈرس کو دوبارہ اسی عہدوں پر فائز کیا گیا جس کے باعث برسراقتدار پارٹی میں عرصہ دراز سے خدمت انجام دینے والے مسلم قائدین میں تشویش و مایوسی پیدا ہوگئی ہے اور ان سے سوتیلا سلوک کئے جانے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ پارٹی میں ایک ایسی امید لئے بیٹھے ہیں کہ انہیں بھی اہمیت دیتے ہوئے عہدوں پر تقرر کیا جائے گا چنانچہ انہیں مکمل طور پر نظرانداز کرنے پر چیرمین وینکٹیش کو دوبارہ چیرمین اسپورٹس منتخب کیا گیا۔ واسودیو ریڈی ہینڈی کیپ چیرمین، دامودر کے علاوہ ایسے کئی غیرمسلم لیڈروں کو چیرمین بنایا گیا جس سے سینئر مسلم لیڈروں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن ایک لاوارث ادارہ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہاں کے مینیجنگ ڈائریکٹر صرف اور صرف انچارج کی حد تک محدود ہیں۔ اس کے علاوہ تلنگانہ حج کمیٹی، اُردو اکیڈیمی، تلنگانہ وقف بورڈ کے علاوہ کئی ایک ایسے کئی مسلم ادارے ہیں جو انچارج مینیجنگ ڈائریکٹر کی حد تک محدود ہوچکے ہیں۔ ریاستی وزیر برائے اقلیتی بہبود کے ایشور جو مسلم مسائل سے واقف ہی نہیں ہیں جنہیں غیرذمہ دار سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ کبھی مسلمانوں کے مسائل سے متعلق کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرتے اور کبھی جائزہ اجلاس کا اہتمام کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ 2014ء سے اب تک اقلیتی مالیاتی کارپوریشن میں تجارت پیشہ افراد جو درخواستیں داخل کئے ہیں، جن سے 15% تا 20% افراد ہی استفادہ کرسکے ہیں۔ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن سے کئی لوگ ایک ایسی امید وابستہ کر بیٹھے ہیں کہ کسی نہ کسی دن انہیں استفادہ کرنے کا موقع ملے گا، لیکن ابھی تک 2014ء میں جو درخواستیں آن لائن داخل کی گئی تھیں، وہی درخواستیں آن لائن دکھائی جارہی ہیں۔سال 2021-22ء کی ہنوز کوئی درخواستیں موصول نہیں ہوئیں، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح کا یہاں سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ہر جلسے میں یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ مسلم دوست اور مسلم لیڈر ہیں، لیکن وہ مسلم مسائل کو حل کرنے سے گریزاں ہیں۔ 3 اپریل سے ماہ رمضان المبارک شروع کا آغاز ہونے جارہا ہے لیکن ہنوز انتظامات کیلئے کوئی جنبش نہیں ہورہی ہے۔ ائمہ و مؤذنوں کی تنخواہیں بھی ابھی تک ادا نہیں کی گئیں جس سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر پیدا ہورہی ہے جبکہ اقلیتی اقامتی اسکولس میں اس طرح کی دھاندلیاں کی جارہی ہیں کہ غیرمسلم اسٹاف کو اہمیت دیتے ہوئے تقرر کیا جارہا ہے اور مسلم طالبات و لڑکیوں کو کچھ اور ہی پڑھایا جارہا ہے جن کے باعث اولیائے طلبہ اقامتی اسکولس کے بجائے دیگر خانگی اسکولس میں داخلے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ آلیر کے ایک اقامتی اسکول میں ایک تشویش ناک واقعہ منظر عام پر آیا تھا جس پر عہدیداران مجاز کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں آئی اور نہ ہی کوئی کارروائی کی گئی۔ گروکل کے اقامتی اسکولس میں مسلم ٹیچرس کا تقرر نہیں کیا جاتا جبکہ اقامتی اسکولس میں ہر جگہ غیرمسلم کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو کتنی اہمیت دی جارہی ہے۔ چیف منسٹر سے تلنگانہ کے عوام کی پرزور اپیل ہے کہ چیف منسٹر کی جانب سے 89,000 جائیدادوں سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، اگر اس نوٹیفکیشن میں مسلم برادری کو 12% تحفظات کے تحت ان کے تقررات کئے جائیں تو کے سی آر کی جانب سے مسلمانوں سے کئے جانے والے وعدوں کی تکمیل کے مترادف ہوگا اور 2023ء کے انتخابات میں ٹی آر ایس کو دوبارہ برسراقتدار آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ پارٹی کے سینئر لیڈروں کو بھی اہمیت دی جائے تو یہ خود پارٹی کے مفاد میں ہوگا۔