اقلیتی اسکیمات محض کان خوش کرنے کی کوشش، بجٹ کے بغیر صرف اعلانات

   

٭ غریب مسلم خواتین اور سنچار جاتی کی اسکیمات کیلئے 313 کروڑ درکار، محض 30 کروڑ کا حکومت نے اعلان کیا
٭ بجٹ کی عدم اجرائی ‘کئی اسکیمات ٹھپ، حکومت کی سنجیدگی پر شبہات، اسکالرشپ و فیس ریمبرسمنٹ بھی زیر التواء

حیدرآباد۔ 21 ستمبر (سیاست نیوز) تلنگانہ میں اقلیتی بہبود اور اس کی اسکیمات کا معاملہ اقلیتوں کے لئے محض کان خوش کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کانگریس حکومت برسر اقتدار آئے 2 سال مکمل ہونے کو ہیں لیکن آج تک ایک بھی اسکیم پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا جاسکا جن میں گزشتہ حکومت کی جاریہ اسکیمات شامل ہیں۔ کانگریس حکومت نے اقلیتوں کے لئے جو نئے وعدے کئے تھے ان پر عمل آوری کا تاحال آغاز نہیں ہوا ہے۔ اسکیمات پر عمل آوری میں بجٹ کی اجرائی اہم رکاوٹ ہے۔ گزشتہ 2 برسوں کے دوران اقلیتی بہبود کے لئے اسمبلی میں مختص کردہ بجٹ کا 50 فیصد بھی جاری نہیں کیا گیا جس کے نتیجہ میں اقلیتی اداروں کے بیشتر اسکیمات ٹھپ ہوچکی ہیں۔ اقلیتوں کو محض اسکیمات کے ناموں اور ان کے آغاز کے اعلانات کے ذریعہ خوش کیا جارہا ہے۔ حکومت نے گزشتہ دنوں اقلیتوں کے لئے دو نئی اسکیمات کا اعلان کیا لیکن دونوں اسکیمات کے لئے مختص کردہ بجٹ اسکیمات کے نشانوں کی تکمیل کے لئے ناکافی ہے۔ ناکافی بجٹ کے تعین سے اسکیمات پر عمل آوری میں حکومت کی سنجیدگی پر شبہات کا اظہار یقینی ہے۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن کے ذریعہ دو نئی اسکیمات کا اعلان کیا گیا جو غریب مسلم خواتین اور پسماندہ مسلم طبقات کے لئے ہیں۔ مسلمانوں میں بے سہارا، مطلقہ اور بیوہ خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لئے اندراماں میناریٹی مہیلا یوجنا کے تحت 50 ہزار روپے کی امداد کا اعلان کیا گیا جس کے ذریعہ وہ چھوٹے کاروبار کا آغاز کرسکیں۔ دوسری اسکیم ’’ریونت انا کا سہارا مسکینوں کے لئے‘‘ اعلان کی گئی جس کے تحت پسماندہ مسلم طبقات کو موپیڈ ٹو وہیلر کی خریدی کے لئے ایک لاکھ روپے کی گرانٹ فراہم کی جائے گی۔ مسلمانوں میں انتہائی پسماندہ طبقات جنہیں سنچار جاتی بھی کہا جاتا ہے ان کے تحت مختلف پیشہ جات سے وابستہ گروپس کو اسکیم کے تحت شامل کیا گیا ہے۔ ان طبقات میں فقیر، دودے کولہ، ترکاکاشا اور سنچار جاتی کے دیگر طبقات شامل ہیں۔ حکومت نے دونوں اسکیمات کے لئے 30 کروڑ روپے مختص کئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے دونوں اسکیمات کے لئے ابھی تک استفادہ کنندگان کا کوئی نشانہ طے نہیں کیا ہے اور درخواستوں کی ادخال کی آخری تاریخ 6 اکتوبر مقرر کی گئی ہے۔ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ غریب مسلم خواتین اور چھوٹے پیشوں سے وابستہ مسلم طبقات کو معاشی طور پر خود مکتفی بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے لیکن یہ دعوے بجٹ کی رقم کا جائزہ لینے پر محض کاغذی دکھائی دے رہے ہیں۔ 2011 مردم شماری کے مطابق تلنگانہ میں مسلمانوں کی آبادی 12.5 فیصد ہے جن میں تقریباً 0.5 فیصد مطلقہ اور بے سہارا خواتین ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق تلنگانہ میں 12500 مطلقہ خواتین ہیں اور اگر انہیں فی کس 50 ہزار روپے کی امداد دی گئی تو 63 کروڑ بجٹ کی ضرورت پڑے گی۔ بے سہارا اور بیوہ خواتین کے لئے علیحدہ بجٹ کا انتظام کس طرح کیا جائے گا۔ دوسری طرف دودے کولہ اور فقیر طبقات کی آبادی تلنگانہ میں تقریباً 25,000 ہے اور اگر ہر کسی کو ایک لاکھ روپے کی امداد دی گئی تو 250 کروڑ روپے کی ضرورت پڑے گی۔ دونوں اسکیمات کے لئے مجموعی طور پر 313 کروڑ کی ضرورت ہوگی جبکہ حکومت نے محض 30 کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔ 30 کروڑ میں دونوں اسکیمات کی حصہ داری کیا ہوگی اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ فلاحی اسکیمات کے لئے بجٹ کی عدم اجرائی محکمہ اقلیتی بہبود کے اداروں کی عام شکایت ہے۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن کے علاوہ وقف بورڈ اور دیگر اداروں کی اسکیمات ٹھپ ہوچکی ہیں۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن سے سبسیڈی پر مبنی بینک قرض کی فراہمی کے لئے دو مرتبہ درخواستیں طلب کی گئی تھیں لیکن آج تک اسکیم پر عمل نہیں کیا گیا۔ بے روزگار اقلیتی نوجوانوں کو 4 وہیلرس گاڑیوں کی فراہمی اور اسکل ڈیولپمنٹ کی اسکیم پر بھی عمل آوری نہیں کی جارہی ہے۔ کارپوریشن کے ذمہ داروں کا ماننا ہے کہ حکومت نے غریب مسلم خواتین کو سلائی مشینوں کی تقسیم کو منظوری دی تھی اور سابق بی آر ایس دور حکومت میں حاصل کردہ مشینوں کو ریاست کے مختلف علاقوں میں تقسیم کردیا گیا۔ مشینوں کی تقسیم کے لئے حکومت نے نیا بجٹ جاری نہیں کیا جس کے نتیجہ میں سلائی مشینوں کی تقسیم کا عمل بھی روک دیا گیا ہے۔ اقلیتی بہبود کی بیشتر اسکیمات میں اسکالرشپ، فیس ریمبرسمنٹ اور اورسیز اسکالرشپ کی اجرائی بھی گزشتہ 3 برسوں سے زیر التواء ہے۔ اقلیتوں کی ترقی محض وعدوں اور اعلانات سے ممکن نہیں بلکہ اعلان کردہ اسکیمات کے لئے درکار بجٹ کی اجرائی ضروری ہے۔ حکومت نے جن دو نئی اسکیمات کا اعلان کیا ہے کم از کم ان کے لئے استفادہ کنندگان کا نشانہ متعین کیا جائے اور اس کے مطابق بجٹ کی اجرائی عمل میں لائی جائے تاکہ معاشی ترقی کا خواب پورا ہوسکے۔ 1