افروز عالم ساحل
مودی حکومت کے بجٹ 2025-26 کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال کے بجٹ اور جاریہ سال کے بجٹ میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ خاص طور پر اس بجٹ میں اقلیتوں کے لئے جو رقم مختص کی گئی ہے وہ مایوس کن ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا مودی حکومت حقیقت میں سب کا وکاس چاہتی ہے۔ بہرحال ہم بات کررہے ہیں مرکزی بجٹ میں اقلیتی بہبود کے لئے مختص کی گئی رقم کی۔ اس ضمن میں آپ کو بتادیں کہ وزارت اقلیتی بہبود کے تحت جو اسکیمات چلائی جارہی ہیں اس میں مسلسل کمی کی جارہی ہے خاص طور پر تعلیمی اسکیمات کے بجٹ میں کمی کا تسلسل جاری ہے حالانکہ بجٹ میں گراوٹ کی بجائے اضافہ کیا جانا چاہئے۔ جس انداز میں ہر سال محکمہ اقلیتی بہبود کے بجٹ کو کم سے کم کیا جارہا ہے اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت خود محکمہ اقلیتی کو ختم کرنے کے درپر ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ یہ حکومت ہندوتوا آئیڈیالوجی کو آگے بڑھارہی ہے۔ اس ضمن میں اپوزیشن نے متعدد الزامات عائد کئے ہیں۔ بجٹ 2025-26 سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حکومت ملک میں اقلیتی نوجوانوں کی تعلیم اور ترقی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ خاص طور پر اسے ملک کے 200 ملین (20 کروڑ مسلمانوں) کی ترقی و بہبود سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مزید براں اس حکومت کے نظریہ نے طویل عرصہ سے مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونسٹوں کو ملک و قوم کے داخلی دشمنوں کے طور پر دکھایا ہے۔
اقلیتی تعلیمی اسکیمات پر حملہ : اگر ہم بجٹ کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بجٹ 2025-26 میں جس پہلی تعلیمی اسکیم کو کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا وہ پری۔ میٹرک اسکالرشپ برائے اقلیتی طلبہ ہے۔ یہ ایک اہم پروگرام ہے جو اقلیتی برادریوں کے بچوں کو اسکول جانے کی اجازت دیتا ہے۔ مالی سال 2023-24 میں اس اسکیم کے لئے 433 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن افسوس کی بات یہ ہیکہ سال 2024-25 میں اس میں مزید کٹوتی کی گئی اور وہ 433 کروڑ روپے سے گھٹ کر 326.16 کروڑ روپے ہوگئے اور اب یعنی بجٹ برائے سال 2025-26 میں اس بجٹ میں مزید کمی کرتے ہوئے اسے 195.70 کروڑ روپے کردیا گیا۔ اگر ہم حقیقی مصارف کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 2023-24 میں صرف 95.83 کروڑ روپے استعمال میں لائے گئے اور 2024-25 میں صرف 90 کروڑ روپے جاری کئے گئے حالانکہ 326.16 کروڑ روپے مختص کئے گئے۔ دیانتدارانہ جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ مختص بجٹ میں کمی کے پیش نظر اس سال کے مصارف کے اعداد و شمار اور بھی زیادہ تشویشناک ہوسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اقلیتی برادریوں کے بچوں کی تعلیم تک رسائی کو مزید مشکل بنانے کے لئے پرعزم ہیں۔ یہی نمونہ اقلیتوں کے لئے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے ساتھ بھی اپنایا گیا جس کے لئے 2025-26 میں بجٹ کو گھٹاکر 413.99 کروڑ روپے کردیا گیا ہے جو پچھلے سال سے تقریباً 65 فیصد کم ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ پیشہ وارانہ اور تکنیکی کورس (انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ) کے لئے میرٹ کم مینس اسکالرشپ کے معاملے میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ پچھلے سال 33.80 کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن اس سال صرف 7.34 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لئے تعلیمی قرضوں سبسیڈی کے لئے بجٹ کو کم کرکے 8.16 کروڑ روپے کردیا گیا ہے جو گزشتہ سال 15.30 کروڑ روپے تھا۔ مزید یہ کہ حالیہ برسوں کے بجٹ میں مدارس کے خلاف حکومت کی دشمنی واضح طور پر جھلکتی ہے۔ 2023-24 میں مدارس اور اقلیتوں کے لئے تعلیمی اسکیمات کے لئے فنڈنگ میں 93 فیصد کمی کی گئی جو گر کر صرف 10 کروڑ روپے رہ گئی۔ 2024-25 میں اسے مزید کم کرکے محض 2 کروڑ روپے کردیا گیا۔ رواں سال اس اسکیم کے لئے مختص رقم کو صرف 0.01 کروڑ روپے کردیا گیا ہے جہاں تک حکومت کی جانب سے دی جانے والی اسکالرشپس کا سوال ہے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں بطور خاص اقلیتی برابدریوں کے لئے غیر معمولی طور پر ممد و معاون ہیں ان اسکالرشپس سے اقلیتی طلباء و طالبات کو بہت زیادہ مدد ملی ہے جیسا کہ سرکاری اسکالر شپس سے دلتوں، قبائیلیوں دیگر پسماندہ طبقات اور اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ سے معاشی چیالنجس سے نمٹنے میں غیر معمولی مدد ملتی ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت اس مدد کو خطرہ میں ڈال رہی ہے۔ بحیثیت مجموعی مالی سال 2024-25 میں اقلیتی طلبہ کی تعلیم سے متعلق 6 اسکیمات کے لئے 1575.72 کروڑ روپے مختص کئے تھے لیکن حقیقت میں صرف 517.20 کروڑ روپے جاری کئے گئے۔ مصارف کے جو اعداد و شمار ہیں ان کا ابھی تک انکشاف نہیں کیا گیا ہوسکتا ہے کہ وہ اور بھی تشویشناک ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2023-24 میں 1500 کروڑ روپے کی اجرائی کے ساتھ 1699 کروڑ روپے بجٹ کا اعلان کیا گیا لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو صرف 428.74 کروڑ روپے صرف کئے گئے، جاریہ سال حکومت نے ان اسکیمات کے کے لئے صرف 678.03 کروڑ روپے مختص کئے، اس میں سے کتنی رقم جاری کی جائے گی اور کتنی خرچ کی جائے گی اسے ابھی دیکھا جاتا باقی ہے اور اس کا سارا انحصار حکومت کے اقدامات پر ہوگا۔ یہ بھی نوٹ کرنا ضروری ہے کہ گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے نریندر مودی انتظامیہ نے مسلم طلبا کو اسکالرشپس کی فراہمی کے دستوری جواز کو چیالنج کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گجرات کے اقلیتی طلبہ کئی برسوں تک مرکزی حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی اسکالرشپس سے محروم رہے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ مرکزی بجٹ میں وقف اسکیمات سے متعلق بجٹ میں بھی کمی کردی گئی۔ آپ کو بتادیں کہ بہت جلد پارلیمنٹ میں حکومت وقف ترمیمی بل پیش کرنے والی ہے جس کے بارے میں مسلمانوں میں وقف جائیدادوں کے تحفظ کو لے کر بہت زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے حالانکہ حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ ملک میں وقف ڈھانچہ میں بہتری لانے کی خواہاں ہے۔ حکومت نے جن اوقافی اسکیمات کی فنڈنگ میں کمی کی ہے ان میں ایک اسکیم قومی وقف بورڈ ترقی اسکیم بھی ہے جو وقف بورڈس کے زیر انتظام جو موقوفہ جائیدادیں ہیں۔ ان کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز یا ڈیجیٹائزکرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ ایک اور اسکیم شہری وقف پنتی وکاس یوجنا ہے جو موقوفہ اداروں اور وقف بورڈس کو سود سے پاک قرض فراہم کرتی ہے تاکہ موقوفہ جائیدادوں کے کمرشیل ڈیولپمنٹ کو یقینی بنایا جائے۔ یہ قرض اس لئے فراہم کئے جاتے ہیں تاکہ موقوفہ اراضیات پر تجارتی کامپلکس شادی خانے، اسپتال اور کولڈ اسٹوریج یونٹس کی تعمیر عمل میں لائی جاسکے۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں ابتداء میں ان دونوں اسکیمات کے لئے علیحدہ علیحدہ بجٹ ہوا کرتا تھا لیکن مرکزی حکومت نے سال 2020-21 کے دوران اس بجٹ میں کمی کردی اور دونوں بجٹ کو ایک دوسرے میں ضم کردیا۔ سال 2023-24 میں ان دونوں اسکیمات کے لئے 17 کروڑ روپے مختص کئے گئے لیکن افسوسناک بات یہ رہی کہ صرف 8 کروڑ روپے جاری کئے گئے جبکہ حقیقی مصارف 0.10 کروڑ روپے رہے۔ مالی سال 2024-25 کے لئے 16 کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا گیا لیکن صرف 3.07 کروڑ روپیوں کی اجرائی عمل میں لائی گئی۔ تاہم اس سال مذکورہ دونوں اسکیموں کے لئے بجٹ میں مزید تخفیف کرکے اسے 13 کروڑ روپے تک محدود کردیا گیا اس کے علاوہ حکومت نے اقلیتوں کی بہبود سے متعلق کئی ایک اسکیمات کو روک دیا۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مودی حکومت نے اقلیتوں کی بہبود کیلئے شروع کی گئی کئی اسکیمات کو روک دیا ہے جس میں اسکیل ڈیولپمنٹ پروگرام ، نئی منزل، یو ایس ٹی ٹی اے ڈی اقلیتی خواتین کیلئے لیڈرشپ ڈیولپمنٹ پروگرام اور ہماری در و ہر جیسے پروگرامس شامل ہیں۔