غیر اقلیت اور تلگو داں اسٹاف ، طلبہ پر مخصوص تہذیب مسلط کرنے کی کوشش، طلبہ تعلیم ترک کرنے پر مجبور
حیدرآباد۔/22 اگسٹ، ( سیاست نیوز) اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کیلئے تلنگانہ میں اقامتی اسکولس اور جونیر کالجس کا قیام عمل میں آیا لیکن ان اداروں پر غیر اقلیتی ٹیچنگ و نان ٹیچنگ اسٹاف کی اجارہ داری نے اقرباء پروری اور بے قاعدگیوں کے کئی معاملات کو بے نقاب کیا ہے۔ حیدرآباد اور دیگر اہم مقامات پر اپنے پسندیدہ انچارج پرنسپلس کے تقررات کئے گئے جبکہ پرنسپل کے عہدہ کیلئے درکار قابلیت کے حامل مستقل پرنسپلس موجود ہیں۔ اقلیتی اقامتی اسکول سوسائٹی دراصل حکومت اور برسراقتدار پارٹی میں شامل بااثر افراد کے فائدہ کا مرکز بن چکی ہے اور آؤٹ سورسنگ کے نام پر قواعد کو پامال کرتے ہوئے غیر اقلیت کے تقررات کے ذریعہ طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کیا گیا ہے۔ سوسائٹی میں اقرباء پروری اور بھاری رقومات کے ذریعہ تقررات میں آؤٹ سورسنگ اداروں کا بھرپور استعمال کیا جارہا ہے۔ حیدرآباد میں پرنسپل کے عہدہ کیلئے کافی ڈیمانڈ ہے جس کے نتیجہ میں پرنسپل کے عہدوں پر تقررات کی کونسلنگ کے موقع پر اپنے پسندیدہ افراد کو بچانے کیلئے بیشتر عہدوں کو بلاک کردیا گیا۔ پرنسپل کے عہدہ کیلئے بی ایڈ اور ایم ایڈ کی قابلیت ضروری ہے لیکن اقامتی اسکول اور جونیر کالج کے پرنسپل کے عہدہ پر پی جی ٹی امیدواروں کا تقرر کیا گیا اور کئی برسوں سے آؤٹ سورسنگ بنیاد پر انچارج پرنسپلس خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حیدرآباد میں اقامتی اسکولس کی تعداد 60 ہے جن میں زیادہ تر اسکولوں میں مستقل پرنسپل کی جگہ انچارج پرنسپلس برسوں سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حیدرآباد کے اسکولوں کے بارے میں کئی ایسے معاملات منظر عام پر آئے جن کی تفصیلات کو اقساط میں لکھا جاسکتا ہے۔ حیدرآباد اور اس کے اطراف کے علاقوں میں واقع اسکولس کے پرنسپل کے عہدہ کیلئے کافی ڈیمانڈ ہے اور اسی مناسبت سے رقومات حاصل کرنے کی شکایات ملی ہیں۔ عام طور پر کونسلنگ کے وقت تمام مخلوعہ جائیدادوں کو اوپن رکھا جاتا ہے لیکن اقامتی اسکول سوسائٹی نے اپنے پسندیدہ افراد کو بچانے کیلئے عہدوں کو بلاک کردیا تھا۔ ریگولر پرنسپل کی موجودگی کے باوجود ٹیچر یا جونیر لیکچرر کو بطور انچارج مقرر کیا گیا۔ قابلیت اور اہلیت کے حامل امیدواروں کا اضلاع کے اسکولوں میں تقرر کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اقامتی اسکولوں میں اسٹاف کی اکثریت کا تعلق غیر اقلیت سے ہے اور ان میں زیادہ تر تلگوداں ہیں جس کے نتیجہ میں اسکولوں اور طلبہ میں ایک مخصوص تہذیب کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیتی طلبہ تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہیں تاکہ اپنی تہذیب کا تحفظ کرسکیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مارچ 2021 میں ریگولر پرنسپلس کے تقررات عمل میں لائے گئے اور حیدرآباد کے کئی اسکولوں میں انچارج پرنسپلس کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اولیائے طلبہ نے بارہا شکایت کی کہ غیر اقلیتی اسٹاف اور تلگوداں پرنسپلس کی جانب سے اقلیتی طلبہ کو مخصوص مذہبی رسومات ادا کرنے اور قابل اعتراض ترانے پڑھنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے۔ اقامتی اسکولوں سے وابستہ اسٹاف نے کئی بے قاعدگیوں کا انکشاف کرتے ہوئے شکایت کی ہے کہ تلگوداں اور غیر اقلیت اسٹاف کے نتیجہ میں اقامتی اسکولس زوال پذیر ہیں۔ اقامتی اسکول سوسائٹی میں اہلیت کے بغیر ہی آؤٹ سورسنگ بنیادوں پر بھاری تقررات کئے گئے جس کے نتیجہ میں ہر سطح پر دھاندلیاں عروج پر ہیں اور حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے فنڈز کا بیجا استعمال عام بات ہوچکی ہے۔ سوسائٹی کی سرگرمیوں پر حکومت کی کوئی نگرانی نہیں کیونکہ چیف منسٹر کے دفتر میں سوسائٹی کی سرپرستی کرنے والے موجود ہیں۔