اقلیتی بجٹ میں حوصلہ افزاء ا ضافہ، مکمل بجٹ جاری ہونا بھی ضروری

   

اقلیتوں کو خود روزگار کیلئے 840 کروڑ روپئے مختص تاریخی فیصلہ
میناریٹی سب پلان اقلیتوں کا دیرینہ مطالبہ
اقلیتوں پر حملوں کی روک تھام کیلئے خصوصی قانون سازی ضروری
فلاحی اسکیمات پر عمل آوری میں پیشرفت قابل ستائش

محمد نعیم وجاہت
ریاست اور ملک کی ترقی اور مختلف طبقات کی بہبود اور خوشحالی کا انحصار حکومتوں کی منصوبہ بندیوں پر ہوتا ہے ۔ کسی بھی قوم کی ترقی تعلیم ، معاشی بہتری سماجی ہم آہنگی اور اخلاقی قیادت کے امتزاج پر مبنی ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کی پائیدار ترقی کیلئے کئی بنیادی شعبوں پر کام پڑتا ہے ۔ تعلیم کو فروغ دینا اقتصادی استحکام کو یقینی بنانا بھی وقت کا تقاضہ ہے ۔ تلنگانہ میں کانگریس حکومت نے 19 مارچ کو مالیاتی سال 2025-26 کا 3004 لاکھ کروڑ پر مشتمل مجموعی بجٹ پیش کیا جس میں اقلیتوں کی بہبود اور ترقی کیلئے 3591 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں جو گزشتہ سال 2024-25 کے مقابلے 587 کروڑ روپئے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ اس بجٹ میں حکومت نے راجیو یووا وکاسم اسکیم کیلئے اقلیتوں کو خود روزگار فراہم کرنے کیلئے 840 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ یہ ایک تاریخی اقدام ہے جس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے ۔ کانگریس پارٹی نے اپنے میناریٹی ڈکلیریشن میں اقلیتوں کی بہبود کیلئے 4 ہزار کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کرنے کا وعدہ کیا تھا اور ساتھ ہی خود روزگار کیلئے تلنگانہ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو 1000 کروڑ روپئے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ کانگریس حکومت نے پہلے سال 3003 کروڑ اور دوسرے سال 3591 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا ۔ ریاست کی مالیاتی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غور کیا کیا جائے تو یہ پیشرفت ٹھیک ٹھاک کہی جاسکتی ہے ۔ اگر اقلیتی بجٹ کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو گزشتہ سال منظورہ بجٹ میں تقریباً 1500 کروڑ روپئے ہی خرچ ہوئے ، اس کے علاوہ کوئی نئی اسکیم کا اعلان نہیں ہوا ہے ۔ ہاں البتہ موسیٰ ندی پراجکٹ کے متاثرین میں میناریٹی فینانس کا رپوریشن سے سبسیڈی لون کے طور پر کچھ رقم جاری کی گئی ہے ۔ مکمل بجٹ کے استعمال نہ کرنے پر جب ریاستی وزیر بھٹی وکرمارکا سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ سابق بی آر ایس حکومت نے تلنگانہ کو 7 لاکھ کروڑ روپئے کا مقروض بنادیا ہے ۔ کسانوں کے 21 ہزار کروڑ روپئے کے قرض کی قسط اور سود ماہانہ 6500 کروڑ روپئے ادا کی جارہی ہے ۔ ماضی کے فلاحی اسکیمات کو جاری رکھتے ہوئے کانگریس کی جانب سے اعلان کردہ نئی فلاحی اسکیمات پر عمل آوری کی وجہ سے مکمل بجٹ جاری نہ ہوسکا ہے ۔ جاریہ سال مکمل بجٹ جاری کرنے کے اقدامات کئے جائیں گے کیونکہ کسانوں کے قرض معاف ہوچکے ہیں ، وہی 21 ہزار کروڑ روپئے فلاحی اسکیمات پر خرچ کئے جائیں گے ۔ کانگریس حکومت نے اقلیتوں کی خود روزگار اسکیم کیلئے 840 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ ا ہل افراد کو 4 لاکھ روپئے تک مالی امداد کی جائے گی ۔ آن لائن میں درخواستیں قبول کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ 5 اپریل تک درخواستیں وصول کی جائیں گی ۔ حکومت نے راجیو یووا وکاسم اسکیم کیلئے 6 ہزار کروڑ روپئے کا بجٹ منظور کیا ہے جس میں ایس سی طبقات کیلئے دو ہزار کروڑ بی سی طبقات کیلئے 1800 کروڑ ، ایس ٹی طبقات کیلئے 1360 کروڑ روپئے اور اقلیتوں کیلئے 840 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں ۔ یہ رقم خصوصی فنڈس سے جاری کی جائے گی یا اقلیتی بہبود کے بجٹ سے جاری کی جائے گی ، اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے ۔ اگر وضاحت کردی جاتی ہے تو اقلیتوں میں الجھن ہے وہ دور ہوجائے گی اور حکومت اقلیتوں سے کئے گئے ایک اور وعدہ کی تکمیل کرے گی۔ شادی مبارک اسکیم کیلئے 650 کروڑ ، اوورسیز اسکالرشپ کیلئے 130 کروڑ ، آئمہ مؤذنین کیلئے وقف بورڈ کو 120 کروڑ ، اردو اکیڈیمی کیلئے 12 کروڑ ، کرسچن میناریٹی فینانس کارپوریشن کیلئے 150 کروڑ روپئے ، رمضان گفٹ اور چیف منسٹر کی افطار پارٹی کیلئے 98 کروڑ روپئے ، حج کمیٹی کیلئے 4 کروڑ ، آر ٹی ایف اور ایم ٹی ایف اسکالرشپس کیلئے 420 کرو ڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ ٹمریز کیلئے 995 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں ۔ کانگریس پا رٹی نے میناریٹی ڈکلیریشن کے ذریعہ اقلیتوں سے ڈھیر سارے وعدے کئے ہیں۔ ان وعدوں پر عمل آوری کا اقلیت بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں ۔ ساتھ ہی میناریٹی سب پلان کا بھی وعدہ کیا گیا تھا ۔ کانگریس کے رکن قانون ساز کونسل عامر علی خاں نے تلنگانہ قانون ساز کونسل میں وقفہ سوالات کے دوران میناریٹی سب پلان کے تعلق سے سوال اٹھایا تھا جس کا ریاستی وزیر سیتکا نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ چیف منسٹر اے ریونت ریڈی کے پاس زیر غور ہے ۔ اگر میناریٹی سب پلان کا اعلان ہوتا ہے تو اقلیتی بجٹ کے تعلق سے بے فکری ہوجاتی ہے کیونکہ اتفاق سے اقلیتوں کیلئے منظور کردہ بجٹ مکمل استعمال نہیں ہوتا ہے تو وہ آئندہ سال کے بجٹ میں کیاری فارورڈ ہوجائے گا، جس طرح ایس سی ، ایس ٹی طبقات کیلئے سب پلان ہونے کی وجہ سے ان کا بجٹ کیاری فارورڈ ہورہا ہے۔ ریاست تلنگانہ ملک کی واحد ریاست ہے جس نے ذ ات پات کا سروے کر رہا ہے ۔ بھارت جوڑو یاترا کے دوران راہول گاندھی نے جس کی جتنی آبادی اس کی اتنی حصہ داری کا نعرہ دیا تھا ۔ تلنگانہ میں ذات پات کا سروے مکمل ہوگیا ہے ۔ ریاست میں اقلیتوں کی آبادی 12 فیصد ہونے کا انکشاف ہوا ہے جس کا سرکاری طور پر حکومت نے اعلان کیا ہے ۔ اس حساب سے اندراماں مکانات کی تقسیم ، دیگر جنرل فلاحی اسکیمات میں بھی آبادی کے تناسب سے اقلیتوں کو نمائندگی ملنے کی نئی امیدیں پیدا ہوئی ہیں ۔ عبدالکلام تحفہ تعلیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس پر بھی عمل آوری ہونے سے حکومت پر اقلیتوں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ کانگریس حکومت کے 15 ماہ مکمل ہوچکے ہیں ۔ متحدہ آندھراپردیش اور تلنگانہ ریاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کابینہ میں مسلم نمائندہ نہیں ہے جس کا ریاست کی اقلیتوں کی جانب سے سخت نوٹ لیا جارہا ہے ۔ کابینہ میں مسلم نمائندہ کو بھی شامل کرنا حکومت کی ذمہ داری بی آر ایس کے 10 سالہ دور حکومت میں اقلیتوں سے ناانصافی ہوئی ہے جس کی وجہ ریاست کے عوام بالخصوص اقلیتوں نے کانگریس پر بھروسہ جتایا ۔ اُس بھروسہ کو قائم رکھنا کانگریس حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ریاست میں لاء اینڈ آرڈر بہت بڑا مسئلہ ہے ، گزشتہ 15 ماہ کے دوران ریاست کے مختلف مقامات پر فرقہ پرستوں کی جانب سے اقلیتوں پر حملے کئے گئے ۔ شکر ہے جلد ہی ان پر قابو پالیا گیا ہے مگر خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی نہ کرنے سے بھی اقلیتوں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے خصوصی قانون سازی کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔ حکومت اس جانب بھی ٹھوس اقدامات کرے۔