اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو ایک کروڑ 3 ہزار 890 روپیوں کی آمدنی

,

   

اسکیم سے استفادہ کے لیے ایک لاکھ 53 ہزار 906 درخواستیں ، فیس درخواست پانچ سو روپیوں کی وصولی
حیدرآباد۔20فروری(سیاست نیوز) تلنگانہ ریاستی اقلیتی مالیاتی کارپو ریشن کی جانب سے سال 2015-16کے دوران وصول کی گئی 1لاکھ 53ہزار 906درخواستیں داخل کرنے کے لئے فی درخواست گذار زائد از 500 روپئے خرچ کئے گئے اور اس کے علاوہ دفاتر کے چکر الگ سے لگائے گئے تھے جس میں ہزاروں روپئے خرچ ہوئے اگر راست حکومت کو ہونے والی آمدنی کا ہی اندازہ لگایا جائے تو ان درخواستوں کی وصولی کے ذریعہ حکومت تلنگانہ کو ایک کروڑ 3ہزار 890 روپئے حاصل ہوئے ہیں جبکہ اس کے علاوہ ایسے بھی اخراجات ہیں جو کہ حساب میں شامل نہیں ہیں جیسے آن لائن درخواست جمع کروانے کے بعد دفاتر کے چکر لگانے کے اخراجات اگر مجموعی اعتبار سے فی درخواست گذار 500 روپئے کے اخراجات کے حساب سے اندازہ لگایا جائے تو ایک لاکھ 53 ہزار 906درخواستوں کے ادخال کے لئے جملہ درخواست گذاروں کی جانب سے جو رقم خرچ کی گئی ہے وہ 7کروڑ 69لاکھ 53ہزار تک پہنچتی ہے ۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے معلنہ اس اسکیم کیلئے درخواستوں کی وصولی کے دوران اقلیتوں کے 7کروڑ 69لاکھ 53 ہزار روپئے خرچ ہوئے جس میں زائد از ایک کروڑ روپئے حکومت کے خزانہ میں راست پہنچے ہیں لیکن اب ان درخواستوں کو مسترد کرنے کے سلسلہ میں جو منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اس کے لئے دئیے جانے والے انکم سرٹیفیکیٹ کے جواز کو مسترد نہیں کیا جاسکتا لیکن ان ایک لاکھ سے زائد لوگوں کو یہ امید تھی کہ حکومت نے جب درخواست حاصل کی ہے تو اس درخواست پر کوئی کاروائی ہوگی لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے ۔ درمیانی افراد کی جانب سے درخواست گذاروں کو ہراساں کئے جانے کے واقعات اپنی جگہ ہیں لیکن اگر حکومت کی جانب سے ہی عوام کی امیدوں پر پانی پھیرا جائے تو اس کے خلاف کون کاروائی کرے گا؟ عہدیداروں کا کہناہے کہ درخواست گذاروں کی درخواستوں کو حکومت کی جانب سے بجٹ نہ ملنے کی بنیاد پر مسترد کیا جانا درست نہیں ہے لیکن اگر قانونی جواز موجود ہے تو اس کیلئے درخواست گذار کس حد تک ذمہ دار ہے! درخواست گذار نے حکومت کی جانب سے دی گئی مہلت کے دوران تمام اسنادات جمع کرتے ہوئے اپنی درخواست تو داخل کردی ہے لیکن 4برسوں کے دوران حکومت کی جانب سے اگر ان درخواستوں پر کاروائی نہیں کی جاتی ہے اور یہ کہا جائے کہ ان کی جانب سے داخل کی گئی درخواست سے منسلک اسنادات کی مدت ختم ہوچکی ہے تو اس کے لئے حکومت اور تلنگانہ ریاستی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو ذمہ دار قرار دیا جانا چاہئے ۔ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اگر اس مسئلہ پر کوئی درخواست گذار عدالت سے رجوع ہوتا ہے تو ایسی صورت میں اسے بڑی راحت مل سکتی ہے لیکن حکومت کے عہدیداروں اور اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کے عہدیداروں کو اس با ت کا مکمل اندازہ ہے کہ جو غریب لوگ حکومت کے ایک لاکھ روپئے کے قرض کے لئے درخواست ڈال رہے ہیں وہ عدالت میں درخواست کیسے داخل کرسکیں گے! اسی لئے حکومت اور کارپوریشن کی جانب سے ان درخواستوں کے متعلق کسی بھی طرح کا فیصلہ کرنے کے متعلق کوئی اندیشہ ظاہر نہیں کیا جا رہاہے بلکہ یہ کہا جا رہاہے کہ اگر تمام درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے نئی درخواستیں وصول کی جاتی ہیں تو ایسی صور ت میں یہی درخواست گذار دوبارہ درخواست داخل کریں گے حکومت اور کارپوریشن کی یہ سونچ اقلیتوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے لیکن ماہرین قانون کا کہناہے کہ 4سال سے زائد عرصہ تک ان درخواستوں پر عدم کاروائی کی صورت میں ان درخواست گذاروں کی تفصیلات کے ساتھ مفاد عامہ کے تحت بھی درخواست داخل کی جاسکتی ہے اور اس کے علاوہ اگر تلنگانہ ریاستی اقلیتی کمیشن کی جانب سے اقدامات کرتے ہوئے کاروائی کی جاتی ہے اور تلنگانہ ریاستی اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو نوٹس جاری کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں ان درخواستوں پر کاروائی کی جاسکتی ہے اور اگر محکمہ اقلیتی بہبود یا حکومت کی جانب سے ان درخواستوں کے ساتھ منسلک صداقتنامۂ آمدنی کو ہی قبول کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں ان کی بہ آسانی یکسوئی بھی ممکن ہے۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے اعلان کی گئی اسکیم میں درخواستوں کی وصولی کے ذریعہ اقلیتوں کے 7کروڑ سے زائد کے خرچ کا خمیازہ کون بھگتے گا اس کا کوئی پتہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی جانب سے ان درخواست گذاروں کو قرض کی اجرائی یقینی بنائی جائے گی۔ حکومت تلنگانہ نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود اور معاشی ترقی کے منصوبہ کے تحت یہ اسکیم کا اعلان کیا تھا اور اس اعلان کے ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں عوام نے درخواستیں داخل کی تھیں لیکن اب ان کی درخواستیں غیر اہم ہونے جا رہی ہیں اور ان درخواستوں کی یکسوئی کے سلسلہ میں کوئی آواز نہیں اٹھائی جا رہی ہے اور کہا جا رہاہے کہ ریاست تلنگانہ کے خزانہ میں اتنا بجٹ نہیں ہے کہ تمام درخواستوں کی یکساں یکسوئی عمل میں لائی جاسکے ۔