واشنگٹن : انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی قائم مقام ہائی کمشنر نے ایرانی حکام سے کہا ہے کہ عوامی مقامات پر ایرانی خواتین کے ملبوسات پر پولیس کی پہرے داری کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ اہلکار نے اس نوجوان ایرانی خاتون کی موت کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جو ملک کی متنازع اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھیں۔مغربی ایران میں ساقیز سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی گزشتہ ہفتے ایک پولیس اسٹیشن میں اس وقت گر گئی تھیں، جب ایران کی اخلاقی پولیس نے انہیں حراست میں لیا تھا۔ اخلاقی پولیس خواتین کے لباس سے متعلق سخت ضوابط کا نفاذ کرتی ہے۔مہسا امینی کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ قانون نافذ کرنے والے افسروں نے دوران حراست ان کے ساتھ بدسلوکی بھی کی تھی۔ اقوام متحدہ نے بھی اب اس معاملے کی آزادانہ تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔اقوام متحدہ میں انسانی حقوق سے متعلق قائم مقام ہائی کمشنر ندا الناشف نے کہا، ”مہسا امینی کی المناک موت، ان پر تشدد اور ان کے ساتھ ناروا سلوک جیسے الزامات کی فوری، غیر جانبدارانہ اور مؤثر طریقے سے ایک ایسی آزاد اتھارٹی کے ذریعے تحقیقات ہونی چاہیے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے خاندان کو انصاف اور سچائی تک رسائی حاصل ہو۔