اندور۔20؍نومبر ( ایجنسیز )فرید آباد کی الفلاح یونیورسٹی کے چیئرمین جواد احمد صدیقی پر انتظامیہ اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے۔ مہو میں ان کے گھر کو گرانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ دہلی کار بم دھماکوں کے ملزمین کا الفلاح یونیورسٹی سے تعلق ہونے کی وجہ سے ادارے اور اس کے عہدیداروں کی گھیرا بندی جاری ہے۔ الفلاح یونیورسٹی کے چیئرمین محمد جواد احمد صدیقی مدھیہ پردیش میں مہو کے رہنے والے ہیں۔ جواد کا آبائی گھر مہو کے کایستھ محلہ میں واقع ہے۔ جلد ہی اس گھر پر بلڈوزر چلایا جا سکتا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ نے مکان کے ایک حصہ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے گرانے کا نوٹس جاری کر دیا۔کنٹونمنٹ بورڈ نے جواد صدیقی کے مکان پر غیر قانونی تعمیرات ہٹانے کا نوٹس جاری کرتے ہوئے تین دن کی مہلت دی ہے۔ یہ گھر مبینہ طور پر ان کے والد حماد صدیقی کے نام پر ہے۔ بورڈ کے حکام کے مطابق مکان بغیر اجازت کے تعمیر کیا گیا۔ اس مکان کے حوالے سے ماضی میں بھی نوٹس جاری کیے جا چکے ہیں۔دہلی بم دھماکوں کے ملزمین کا الفلاح یونیورسٹی سے تعلق سامنے آنے کے بعد ادارے کے چیئرمین جواد احمد صدیقی کے خلاف سلسلے وار چھاپے مارے گئے۔ بعد ازاں گذشتہ روز انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ای ڈی کی حراست میں دے دیا گیا۔ واضح رہے کہ دہلی دھماکے کے ملزمین الفلاح یونیورسٹی میں تدریسی سرگرمیاں انجام دے رہے تھے اور جواد احمد صدیقی الفلاح یونیورسٹی کے چیئرمین ہیں۔ جواد احمد صدیقی کا خاندان تقریباً 25 سال قبل مہو چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اس سے پہلے جواد اور ان کا خاندان مہو میں ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ ان کے والد شہر قاضی تھے اور ان کا انتقال 1995 میں ہوا۔دہلی کے حالیہ بم دھماکوں کے کلیدی ملزم ڈاکٹر عمر نبی الفلاح یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔
نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ تب سے یہ پورا معاملہ سرخیوں میں ہے۔ اس سلسلے میں کینٹ بورڈ نے مہو کینٹ میں الفلاح یونیورسٹی کی چار منزلہ عمارت سے تجاوزات ہٹانے کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ نوٹس میں تین دن کا وقت دیا گیا ہے۔ اگر جواد صدیقی اور ان کے اہل خانہ نے تین دن میں اپنی چار منزلہ عمارت سے تجاوزات نہ ہٹا سکے تو کینٹ بورڈ مزید کارروائی کرے گا۔حال ہی میں مہو پولیس نے جواد کے بھائی حمود کو حیدرآباد سے گرفتار کر لیا تھا۔ وہ دھوکہ دہی کے ایک کیس کے سلسلے میں گذشتہ 25 سال سے مفرور بتائے جا رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ 1995 میں الفلد نام کی ایک مالیاتی کمپنی مہو میں کام کرتی تھی۔ حمود اس کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ اس نے فینانس کے نام پر کئی لوگوں سے لاکھوں روپے کا غبن کیا۔ لوگوں نے اس کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی۔ ذرائع کے مطابق حمود تب سے فرار تھے۔ مہو چھوڑنے کے بعد سے انہوں نے مہو میں کسی سے رابطہ نہیں رکھا۔ وہ حیدرآباد میں نام بدل کر رہ رہے ہیں۔
