کیرانہ 20 مارچ (یو این آئی)حق و ناحق اور صحیح وغلط کوپسند اور ناپسند سے خلط ملط کرکے اسلامی معاشرے کی جو ایک عجیب و غریب پہچان بنا دی گئی ہے اس کے ازالے کے لئے القرآن اکیڈمی کی کوششوں کا اب ملک کے طول و عرض میں نوٹس لیا جانے لگا ہے ۔ اسی تجسس کے رخ پر کیرالہ کے آور انڈیا فاؤنڈیشن کے ایک سہ رکنی وفد نے کل القرآن اکیڈمی کیرانہ کا دورہ کیا اور یہاں کے نظام درس وتدریس کے علاوہ تخلیق کائنات کے مقصد ایزدی کی عملی تکمیل کو کوششوں کا جائزہ لیا۔ یہ اطلاع اکیڈمی کے ڈائریکٹر فتی اطہر شمسی نے دی ہے ۔ دورہ کرنے والے وفد میں مولانا عمیر اختر، مسٹر پی سلیم نیز عبد اللطیف شامل تھے وفد نے القرآن اکیڈمی کیرانہ کی سرگرمیوں، اس کے نصاب و طریق تعلیم کا بھی بغور جائزہ لیا اور بہتر تفہیم کے لئے القرآن اکیڈمی کے طلبہ سے بھی بات چیت کی۔وفد کے استقبال میں اکیڈمی میں ایک نشست منعقد کی گئی جس کی صدارت ڈاکٹر بدر الاسلام سابق یوگا اسٹیٹ کمشنر نے کی۔ نشست کا آغاز اکیڈمی کے ایک طالب علم قاری محمد شہزاد کی تلاوت سے ہوا۔ مفتی اطہر شمسی کے استقبالیہ کلمات کے بعد نشست کو خطاب کرتے ہوئے مولانا عمیر اختر نے کہا کہ وہ القرآن اکیڈمی کی قرآن فہمی کی ان منظم کوششوں کو دیکھ کر نہایت درجہ مسرور ہوئے ہیں اور جلد ہی اس کی کچھ شاخیں وہ مختلف شہروں میں قائم کریں گے ۔ کیرالہ سے آئے مہمان عبد اللطیف نے کہا کہ سب سے زیادہ متاثر کن چیز القرآن اکیڈمی کیرانہ کا طریقہ تدریس ہے جس نے قرآنی عربی کو سیکھنا بے حد آسان کر دیا ہے ۔ پی سلیم نے اکیڈمی میں غیر مسلموں کے لئے بھی کورسز شروع کئے جانے کا مشورہ دیا تاکہ معاشرتی تبدیلی کا دائرہ وسیع ہو۔انہیں ڈائریکٹر القرآن اکیڈمی نے مطلع کیا کہ یہ سوچ پہلے سے شامل منصوبہ ہے ۔ طالب علم خالد بن سعود نے اس موقع پر مہمانوں کو بتایا کہ اکیڈمی میں داخلہ لینے سے قبل وہ نہایت متشدد طبیعت رکھتے تھے لیکن اکیڈمی کے لکچرز نے انہیں نہایت درجہ معتدل بنا دیا ہے ۔قاری محمد شہزاد خطیب نے کہا کہ اکیڈمی نے سب سے بڑی چیز یہ سکھائی ہے کہ حق اور نا حق غلط اور صحیح کو جاننے کی واحد میزانِ صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول ہے ۔