عزیز بچو! الٰہ دین کا چراغ نسل در نسل ہوتا ہوا جب الٰہ دین VII کے ہاتھ آیا (جو ایک سیدھا سادہ انسان تھا) تو اس نے باپ کے انتقال کے اگلے ہی روز چراغ زمین پر رگڑا، جس سے فضا میں دھواں پھیل گیا اور پھر اس دھویں میں سے ان کا خاندانی جن خوفناک قہقہے لگاتا ہوا نمودار ہوا۔ اس کے بازو مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے تھے اور قد آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ یہ دھواں چھٹا اور اس قوی ہیکل جن کی دہلا دینے والی آواز فضا میں گونجی : ’’ کیا حکم ہے میرے آقا؟‘‘ توالٰہ دین ہفتم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر کہا : ’’ ذرا دوڑ کر نکڑ والی دکان سے میرے لیے ایک سانچی پان لاؤ۔‘‘ جن کو اپنے نئے آقا کے اس حکم کی تعمیل میں بڑی شرم محسوس ہوئی، مگر اُس نے تعمیل کی اور دوبارہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔ الہ دین نے اُسے حکم کا منتظر پایا تو کہا: ’’ نہانا چاہتا ہوں، بالٹی اُٹھاؤ اور سرکاری نل سے پانی بھر کر اُسے صحن میں رکھ دو۔‘‘ جن کو اگرچہ ایک بار پھر بڑی شرمندگی محسوس ہوئی ، مگر اُس نے ’’جو حکم میرے آقا‘‘ کہا اور غائب ہوگیا۔ نہانے کے بعد الہ دین نے ایک بار پھر چراغ رگڑا جس پر ایک گڑگڑاہٹ سنائی دی اور ہیبت ناک قہقہے لگاتا ہوا جن نمودار ہوا۔ اس نے جھک کر کہا: ’’کیا حکم ہے میرے آقا؟‘‘الٰہ دین نے کہا: ’’ بازار سے سبزی لے کر آؤ اور میرے لیے جلدی سے کھانا تیار کرو، مجھے بڑی بھوک لگی ہے۔‘‘ یہ سن کر جن بہت شرمسار ہوا اور گردن جھکا کر بازار کی طرف چل پڑا۔کھانا وغیرہ کھا کرالٰہ دین نے ایک مرتبہ پھر چراغ رگڑاجس پر جن ایک کھسیانی ہنسی ہنستا ہوا نمودار ہوا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔الٰہ دین نے حکم دیا کہ پڑوسیوں سے تھوڑی سی پتّی مانگ کر لاؤ اور میرے لئے اچھی سی چائے بناؤ۔‘‘ یہ سن کر جن کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے جو اس نے فوراً ہاتھ سے پونچھ لئے اور اُس نے نہ چاہتے ہوئے بھی حکم کی تعمیل کی۔ پھر ایک دن ، مہینے اور سال گزرتے گئے اور وہ اپنے آقا کی خدمت میں اسی طرح مصروف رہا۔ اس کے کپڑے دھوتا، اِستری کرتا، جوتے پالش کرتا، برتن مانجھتا اور نکڑ کی دُکان سے آقا کیلئے پان اور سگریٹ خرید کر بھی لاتا اور پھر اس کی نظروں سے غائب ہو جاتا۔ اس دوران جن میں ایک تبدیلی آئی۔ اُس کی جسامت پہلے سے بہت کم ہوگئی۔ اس کا قد بھی گھٹتا جانے لگا اور اس کے قہقہوں کی گونج بھی اب مدھم پڑنے لگی۔ ایک تبدیلی اس میں یہ بھی آئی کہ الٰہ دین کے چراغ رگڑنے پر وہ کاندھے پر رومال رکھے نمودار ہونے لگا اور ’’کیا حکم ہے میرے آقا‘‘ کے بجائے ’’کیا حکم ہے صاحب جی‘‘ کہنے لگا۔ یہ جن آہستہ آہستہ اپنی پہچان بھولتا جارہا تھا، سوالٰہ دین کے اس جن کی نقاہت اور کمزوری اب دن بہ دن بڑھنے لگی حتیٰ کہ ایک وقت آیا کہ جن کا قد گھٹتے گھٹتے اپنے آقا کے قد کے برابر ہو گیا۔ اس کے بازو اب مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے نہیں تھے بلکہ وہ سکڑ کر اپنے آقا جتنا ہی رہ گئے۔ رفتہ رفتہ اس کی کمر میں درد ہونے لگا اور رگ پٹھّوں میں تکلیف شروع ہونے لگی لیکن وہ اب بھی اپنے ’’صاحب جی‘‘ کی خدمت میں ہمیشہ مصروف رہتا۔ اب وہ پہلے جیسا طاقتور جن نہیں رہا بلکہ وہ اپنی شناخت تک بھول گیا ۔ سو اب اُسے بلانے کیلئے چراغ رگڑنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ کاندھے پر رومال رکھے، پائجامہ اور بنیان پہنے ایسے ہی سب کی نظروں کے سامنے پڑا رہتا۔ اس کا قدالٰہ دین کے قد سے بھی چھوٹا ہوگیا تھا۔ چنانچہ جب بھی جن کو بلانا ہوتا تو وہ اسے’’ اوئے چھوٹے! اِدھر آ‘‘ کہہ کر پکارتا۔ ایک دن اُس نے الٰہ دین سے کہا: ’’صاحب جی! اگر آپ اجازت دیں تو میں کہیں اور کام تلاش کرلوں۔ آپ کو جو تنخواہ ملتی ہے، اس میں آپ کا اپنا گزارا بھی نہیں ہوپاتا۔‘‘الٰہ دین یہ سن کر جھینپ گیا اور پھر اُس نے رضامندی کے اظہار کیلئے اپنی گردن ہلائی۔ آج کل یہ جن بابو ہوٹل میں ملازم ہے اور ’’ اوئے چھوٹے‘‘ کی آواز سن کر تھکے تھکے قدموں کے ساتھ ایک میز سے دوسری میز کی طرف جاتا ہے۔ کبھی کبھی اسے اپنا ماضی یاد آتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے بازو اور آسمان سے باتیں کرتا ہوا قد، بڑے بڑے بادشاہوں کے محلّات کو اپنی ہتھیلی پر اُُٹھا لینے والا جن دوبارہ جن کے روپ میں آنے کیلئے اپنی تمام قوتیں جمع کرتا ہے، مگر اپنی اس تمام تر کوشش کے نتیجے میں وہ سگریٹ کے دھویں جتنے مرغولے میں سے اپنی دکھتی کمر پر ہاتھ رکھے نمودار ہوتا ہے۔ اس پر وہ مارے شرم کے سَر جھکا لیتا ہے اور ہولے سے کہتا ہے: ’’میں بڑا طاقتور جن تھا، مگر میرے آقاؤں نے مجھے کمزور کر دیا۔‘‘ پھر ایک دم سے خوف زدہ ہو کر وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا کہ کہیں کسی نے یہ سن تو نہیں لیا کہ وہ کبھی بڑا طاقتور جن تھا۔